Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مسلم لیگ نون کے دور اقتدار میں چترال کی ترقی۔ ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا -عبدالباقی چترالی

شیئر کریں:

سابقہ فوجی صدر پرویز مشرف کے بعض فیصلوں سے ملک اور قوم کو شدید نقصان پہنچا۔ ملک دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔کئی قیمتی جانیں جائع ہوئیں اور کئی قیمتی املاک کو نقصان پہنچا مگر پرویز مشرف چترالی عوام کے لیے کارہائے نمایان انجام دیا۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے دوران لواری ٹنل کے لیے بھاری مقدار میں فنڈ جاری کرکے ٹنل پر کام کا آغاز کردیا۔ ٹنل پر کام شروع ہونے سے چترالی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور چترالی عوام پرویز مشرف کو دعائیں دینے لگے۔ کیونکہ ٹنل کا مسلہ چترالی عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسلہ بن چکا تھا۔

لواری ٹنل تعمیر نہ ہونے سے چترالی عوام کو سفر کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔خاص کر سردیوں کے موسم میں برف باری ہونے کی وجہ سے لواری ٹاپ کا زمینی راستہ بند ہونے کی وجہ سے چترال ملک کے دوسرے حصوں سے کٹ کر رہ جاتا تھا۔ صرف ہوائی جہاز کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں سے رابطہ ممکن ہوتا تھا۔ جہاز کا فلائٹ بھی موسم پر انحصار کرتا تھا۔ موسم صاف ہونے کی صورت میں پشاور سے چترال کے لیے روزانہ دو تا تین فلائٹ آجاتے تھے۔ موسم خراب ہونے کی صورت میں وہ بھی کینسل ہوتے تھے۔ سردیوں کے موسم میں بعض دفعہ ہفتوں اور مہینوں تک موسم خراب رہتا تھا تو اس صورت میں لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سردیوں کے موسم میں چترال سے پشاور جانے والے کئی مسافر لواری ٹاپ میں برفانی تودوں کی زد میں آکر ہلاک ہوجاتے تھے۔ ان میں سے بعض کی لاشیں بھی نہیں ملتی تھیں اور بعض کی لاشوں کو بعد میں نکال کر دفنایا جاتا تھا۔


چترالی عوام نے ٹنل کی خوشی میں پرویز مشرف کی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیکر چترال سے کامیاب کرائے جبکہ پرویز مشرف کی پارٹی ملک کے دوسرے حصوں سے سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ دوہزار تیرہ کے الیکشن میں چترالی عوام نے پرویز مشرف کی پارٹی کو کامیاب کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔ چترالی عوام ٹنل کی تعمیر کو پرویز مشرف کا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
دوہزار آٹھ کے انتخابات میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی تو لواری ٹنل کا کام روک کر فنڈ دوسرے جگہے منتقل کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے چار سال تک ٹنل کاکام تاخیر کا شکار رہا۔دوہزار تیرہ کا الیکشن مسلم لیگ نون نے جیت لی اور نواز شریف صاحب وزیر آعظم منتخب ہوگئے۔

نوازشریف صاحب نے چترالی عوام کی مشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے ٹنل کے لیے ترقیاتی فنڈ جاری کرکے دوبارہ کام کا آغاز کردیا اور سامبو کمپنی کو ٹنل کا کام جلدی مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر آعظم نواز شریف نے ذاتی دلچسپی لے کر دو بار ٹنل کا دورہ کیا۔ اس طرح نواز شریف نے ستائیس ارب روپے کی بھاری فنڈ فراہم کرکے لواری ٹنل کو پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔اس طرح چترالی عوام کا دیرینہ مسلہ نواز شریف صاحب کی کوششوں سے حل ہوا۔ چترال کا دوسرا بڑا مسلہ بجلی کا تھا۔ چترال کے مقامی بجلی گھر سے چترال کے بڑھتی ہوئی آبادی کی بجلی کی ضرورت پوری نہیں ہورہی تھی۔انتہائی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی۔

چترال بجلی کی شدید کمی کے باعث تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔جبکہ موجودہ اپر چترال کو ریشن پاؤرہاؤس سے بجلی فراہم ہوتی تھی لیکن ریشن بجلی گھر کی پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے اپر چترال کے عوام کو بھی بجلی کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ چترال میں بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لیے مسلم لیگ نون کی حکومت نے گولین گول پاؤر پراجیکٹ کے لیے بھاری مقدار میں فنڈ فراہم کیئے۔ اس سے پہلے پراجیکٹ کے لیے فنڈ نہ ہونے وجہ سے کام سست روی کا شکار تھا۔ اُس وقت کے ایم این اے افتخار الدین نے وزیر آعظم نواز شریف کی توجہ چترالی عوام کے مسائل کی طرف مبذول کرکے بجلی کے مسلے کو حل کرنے کے لیے بھاری مقدار میں فنڈ جاری کرادیا۔ فنڈ مہیا ہونے کی وجہ سے گولین گول پاؤر پراجیکٹ جلدی تکمیل کو پہنچا۔اُس وقت کے وزیرآعظم شاہد حاقان عباسی صاحب نے گولین گول پاؤر پراجیکٹ کا افتتاح کیااور لوئر چترال کو ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کی گئی جبکہ اپر چترال کو بجلی فراہم نہیں کی گئی۔ اس ناانصافی کے خلاف اپر چترال کے عوام نے شدید احتجاج کرکے گولین گول بجلی گھر کی طرف جلوس کی شکل میں لانگ مارچ کیا۔

شدید سردی کے موسم میں کئی میل پیدل سفر کرکے جب احتجاجی جلوس برنِس کے مقام پر پہنچا تو وہاں موجود پولیس اور سکاؤٹس کے جوانوں نے جلوس کو آگے بڑھنے سے روک دیاتو مزید تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیاتھا۔ اُس وقت ایم این اے افتخار الدین نے جلوس کے نمائندوں اور انتظامیہ کے ذمہ داران سے بات چیت کرکے صورت حال کو خراب ہونے سے بچالیا اور بجلی کی فراہمی کے مسلے کو جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرنے کے بعد جلوس پُرامن طور واپس اپر چترال کی طرف روانہ ہوگیا اور پولیس کے جوان عوامی ڈنڈے کھائے بغیر سلامتی کے ساتھ چترال واپس لوٹ گئے۔ اس کے چند دن بعد حسب وعدہ اپر چترال کو بجلی فراہم کی گئی جوکہ تاحال جاری ہے۔


اس کے علاوہ بھی مسلم لیگ نون کی حکومت نے چترال کی ترقی کے لیے بڑے منصوبوں کی منظوری دی۔ ان بڑے منصوبوں میں گیس پلانٹ کے منصوبے کی تعمیر کے لیے لوئرچترال کے دو مقامات پر زمین خریدی گئی اور وزیر آعظم نواز شریف کے دورۂ چترال کے موقع پر دو سو پچاس بستروں والے بڑے ہسپتال کا اعلان کیا تھا جوکہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ہسپتال کے لیے مناسب جگہے کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوا۔ اور چترال کے عوام کو اس بڑی سہولت سے محروم کردیا گیا۔ موجودہ حکومت نے مسلم لیگ نون کی حکومت میں چترال کے لیے منظورشدہ گیس پلانٹ منصوبے کو ختم کرکے چترالی عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کی انتہا کی جو کہ آنے والے وقتوں میں چترال میں پی ٹی آئی کی سیاست کے لیے کوئی اچھی شگون نہیں ہے۔

مسلم لیگ نون کی حکومت میں چترال کی ترقی کے لیے کئی اور منظور شدہ منصوبوں کو موجودہ حکومت نے التواء میں ڈال دیا ہے۔ان ترقیاتی منصوبوں میں چکدرہ ٹو چترال روڈ، چترال ٹو شندور روڈ، اپر چترال میں خاندان کے مقام پر بجلی کا گرڈ اسٹیشن اور کاغلشٹ کے مقام پر گیس پلانٹ کا منصوبہ شامل تھا۔ موجودہ حکومت نے ان تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ مسلم لیگ نون حکومت چترال کے بنیادی مسائل حل کرنے کے باوجود دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں اس کے دونوں امیدوار سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ چترال کے دونوں سیٹوں پر مذہبی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوگئے۔

مسلم لیگ کی چترال میں سیٹ ہارنے کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے پہلے مسلم لیگ نون کی پارٹی چترال میں غیرفعال ہونا اور منظم نہ ہونا ہے۔ دوسری بڑی وجہ سابق ایم این اے افتخارالدین اپنی سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ سیاست میں نووارد ہونے کی وجہ سے چترالی عوام کا مزاج اچھے طریقے سے نہیں جان سکے۔ وہ اپنے والد محترم جناب شھزادہ محی الدین صاحب کے طرز سیاست سے اختلاف رکھتے ہیں۔وہ سیاسی جوڑتوڑ اور برادریزم کو پسند نہیں کرتے۔ وہ صاف ستھری سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گزشتہ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ نون کے اقتدار میں چترال میں کیے گئے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

وہ مذہبی جماعتوں کا توڑ کرنے کی بجائے پی پی پی اور پی ٹی آئی کو اپنے راستے کا پھتر سمجھتا رہا۔ تیسری وجہ ایک ایسے امیدوار کو صوبائی کا ٹکٹ دیا گیا جو اپنے پیشے کے لحاظ سے بہت معروف اور نامور وکیل ہیں۔ وہ کافی عرصے سے سیاست میں سرگرم ہیں مگر سیاست میں وہ کسی ایک شاخ پر مستقل گھونسلہ بنا کر نہیں رہتا۔ وہ موسم کے مطابق اپنا گھونسلہ بدلتا رہتا ہے۔ کسی ایک شاخ پہ گھونسلہ بنا کر رہنا اس کو پسند نہیں۔ اس وجہ سے گزشتہ انتخابات میں اس کو عوام کی جانب سے کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ وہ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ نون کے اقتدار میں چترال میں کیے گئے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے میں ناکام رہے۔ وہ انتخابات کے موقع پر اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے وقتی طور پر کسی پارٹی میں شامل ہوکر ٹکٹ حاصل کرکے الیکشن لڑتا ہے۔ انتخابی رزلٹ آنے کے بعد وہ سیاسی منظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے تمام خوبیوں اور قابلیت کے باوجود چترالی عوام کے مزاج سے تاحال ناآشنا ہے۔ وہ کافی عرصے سے سیاست میں ہونے کے باوجود ابھی تک چترالی عوام کا دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اگر ایڈوکیٹ صاحب حقیقی معنوں میں مستقبل میں سیاست کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر چترال کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے جد و جہد کرنا چاہیے۔


دوہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پارٹی صدارت سے بھی برطرف کردیا گیا جس کے اثرات پارٹی پر بھی پڑے۔ مسلم لیگ نون کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور پارٹی قیادت کو بدنام کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے گئے۔ پارٹی رہنماؤں کو قید و بند کی سزائیں دی گئیں اور پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کے لیے تمام حربے آزمائے گئے۔ ان سب کوششوں کے باوجود مسلم لیگ نون اب بھی قائم ہے اور فعال ہے اور آنے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ آنے والے وقتوں میں موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور بدترین مہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ نون کا مستقبل روشن دکھائی سے رہا ہے۔


شیئر کریں: