Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عالمی دن برائے افراد باہم معذوری۔تحریر محمد عبدلباری

شیئر کریں:

ہر سال 3 دسمبر کو افراد باہم معذوری کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے  تقریباً تمام ممالک میں مختلف قسم کے تقریبات منعقد کیے جاتے ہیں۔  معذور افراد کی فلاح و بہبود،  ان کی تعلیم و تربیت اور انہیں معاشرے کے دیگر افراد کے برابر حقوق فراہم کرنے کے لئے مختلف قسم کی ریلیاں، سیمینارز اور محفلیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ انہی تقریبات کی بدولت  عام عوام اور حکام بالا تک معذور افراد کے مسائل اور ان کے حقوق کے فقدان کے بارے میں معلومات پہنچ جاتے ہیں اور معذور افراد کے مسائل اور ان کے حل کے متعلق آگاہی  بھی حاصل ہوتی ہے۔ 

افراد باہم معذوری کے کل تیرہ (13) اقسام ہیں مگر بنیادی طور پر انہیں یکجا کر کے چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

  • قوت سماعت اور قوت گویائی سے محروم افراد
  • قوت بصارت سے محروم افراد
  • جسمانی معذوری
  • ذہنی پسماندگی 

دنیا کی تاریخ میں معذور افراد کے مسائل اور ان کے حل اور معذور افراد کی دیکھ بھال کی طرف پہلی مرتبہ توجہ اس وقت دیا گیا تھا  جب پہلی جنگ عظیم کے دوران  پھیلنے والے  تباہی کی وجہ سے بہت سے افراد معذوری میں مبتلا ہوئے تھے۔ 

1930 میں امریکہ میں نابینا افراد کے لیے قانون سازی کی گئی۔ یوں معذور افراد کی فلاح و بہبود اور ان کے لئے قانون سازی کا عمل شروع کیا گیا۔  مختلف ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے معذوری اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی سلسلے میں 1931 میں فرانس کے اندر نابینا افراد کے مسائل کی جانب توجہ دلانے کے لئے ایک عظیم الشان تقریب منعقد کیا گیا تھا۔

1976 میں تمام معذور افراد کے مسائل کے متعلق غور و خوص کے لیے اقوام متحدہ میں بھی ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا تھا پھر 1981 کے سال کو پوری دنیا میں معذوروں کے ساتھ اظہار ہمدردی و یکجہتی والا سال کے طور پر منایا گیا پھر1983 سے 1992 کے درمیان یو این او کے پلیٹ فارم سے معذور افراد کے تمام تر مسائل  کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا گیا 1992 میں یہ حتمی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس کے بعد 3 دسمبر کو ہر سال پوری دنیا میں معذور افراد کےعالمی دن کی حیثیت سے منایا جائے گا اس اعلان کے ساتھ ساتھ یو این او کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کے اغراض و مقاصد بھی بیان کیا۔ 

  • دنیا کے تمام ممالک 3دسمبر کو عالمی یوم معذوری کے مناسبت سے منانے کے لئے پابند ہوں گے۔
  • اس دن عام افراد کو افراد باہم معذوری کے متعلق آگاہی دی جائے گی تاکہ وہ خصوصی افراد کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
  • اس دن کو منانے کا مقصد معذور افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
  • معذور افراد کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا۔ 
  • عام آدمی اور معذور افراد کے درمیان سماجی،  معاشرتی اور اخلاقی تعلقات کو بحال رکھنا۔ 
  • معذور افراد کو روزگار فراہم کرنا اور انکی مالی معاونت کرنا۔ 
  • زندگی کے تمام تر معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔
  • افراد باہم معذوری کے ساتھ پیش آنے والے معاشرتی ناانصافیوں کو دور کرنا۔ 
  • معذور افراد کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا۔ 
  • انہیں ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائیں۔ 

ایک اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی  کا 15٪ آبادی افراد باہم معذوری پر مشتمل ہے۔ WHO کے ایک سروے کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی  تقریبا 10٪ آبادی افراد باہم معذوری پر مشتمل ہے۔ اور دنیا کے 45 ممالک میں خصوصی افراد کے لئے قوانین بنائے گئے ہیں۔ 

80٪افراد باہم معذوری ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں ۔ ایک اور المیہ یہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں افراد باہم معذوری کی 90٪ آبادی تعلیم سے محروم ہے اگر ہم پوری دنیا کی شرح خواندگی کی بات کریں تو افراد باہم معذوری کی شرح خواندگی  3٪ فیصد ہے۔ اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو صوبہ  پنجاب میں افراد باہم معذوری کی شرح خواندگی 5٪  ہے، سندھ میں 3.5٪ کے پی کے میں 2.50٪ بلوچستان میں 2٪ وفاق میں 2٪ آذاد کشمیر میں 4٪ اور گلگت بلتستان میں 3٪ ہے۔  

اگر ہم بے روزگاری کی بات کریں تو ایک اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 80٪  افراد باہم معذوری بے روزگار ہیں ۔ اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ افراد باہم معذوری  اپنی معذوری کی وجہ ہے کہ وہ بے روزگار ہیں۔ 

ڈبلیو ایچ او کے مطابق بعض ممالک میں اکثر معذوری زخموں اور تشدد کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار معذور افراد ہوتے ہیں۔ 

یوں یہ بات واضح ہوئی کہ معذور افراد کے حقوق کوہر لحاظ سے  پامال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ معذور افراد کے حقوق کے لئے قوانین بھی بنے ہوئے ہیں۔  قوانین بنے ہوئے ایک زمانہ بھی گزر گیا مگر پھر بھی ان کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس لئیے  ہم حکام بالا سے گزارش کر رہے ہیں  کہ اس حوالے سے کوئی خاص اور مثبت قدم اٹھایا جائے۔ اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاۓ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
55617