Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

شیئر کریں:

جب کوئی شخص جذبات سے مغلوب ہوجائے تو وہ کوئی معقول بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ پیش آمدہ مسئلے پر عقل و بصیرت کی رُو سے غور کرے اور دلائل و براہین کے مطابق کسی فیصلے پر پہنچے، جو حالت افراد کی ہوتی ہے وہی عوام کی بھی ہوتی ہے، جب اقوام بھی جذبات کے سیلاب میں بہہ جائیں تو وہ عقل و دانش اور فہم و تدبر کی رو سے معاملات کے فیصلے نہیں کرتیں۔ قیام پاکستان کی مخالفت میں اظہار رائے کرتے ہوئے انتہاپسند ہندو خصوصاً جلدبازی اور نافہمی کا ارتکاب کرتے ہیں، انہیں وطن عزیز سے عناد اس وجہ سے ہے کہ یہ ’’مردِ مومن‘‘ کی فکر کا نتیجہ ہے، چنانچہ وہ پاکستان کے قیام کے اغراض و مقاصد پر غور وفکر کیے بغیر محض قومی تعصب اور سیاسی تنگ نظری کی بنا پر مخالفت کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان کی مخالفت میں بعض ایسے مسلمانوں کے گروہ بھی شامل تھے، جن میں اکثریت متحدہ قومیت پر جان دینے والے نام نہاد لیڈروں کی تھی۔

پاکستان کا تصور ان کے لئے خطرناک اور دل آزار تصور تھا اور اس بات سے خائف رہتے کہ ان کے غیر مسلم پیشوا برہم ہوکر ان کی سرپرستی سے دست کش نہ ہوجائیں، یہ امر محتاج بیان نہیں کہ انتہاپسند ہندو ہر اس چیز سے بے زار اور سوگوار ہوگا، جس میں پاکستان کی سلامتی ہو۔ خواہ اُسے مسلمانوں سے پاکستان یا بھارت میں کوئی نقصان نہ پہنچے، مگر وہ حسد سے اس قدر مجبور ہے کہ جب تک وہ مسلمان کو برباد اور رسوا نہ دیکھ لے، اس کی فطرت کو تسکین نہیں ہوتی۔ یہ طرز عمل انتہاپسند ہندوئوں بالخصوص آر ایس ایس میں بہ درجہ اتم پایا جاتا ہے، چنانچہ پاکستان کے نام پر جب مقبوضہ کشمیر میں بھی آواز اٹھتی ہے تو بقول سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کہ ’’جموں کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کے بعد بھی اضافی دستے کشمیر لائے جارہے ہیں،

اب کشمیریوں کے پاس سانس لینے کی جو تھوڑی سی جگہ باقی بچی ہے، اسے بھی سکیورٹی کے بہانے ختم کیا جارہا ہے۔‘‘ مودی سرکار کے حواریوں کے لئے نماز کے اجتماعات سوہان روح بنے ہوئے ہیں، جہاں نماز جمعہ کے اجتماعات ہوتے ہیں، انہیں روکنے کے لئے ’گوبر‘ ڈال دیا جاتا ہے، مساجد کو شہید اور اذان دینے پر پابندی لگائی جاتی ہے تو دوسری جانب نعوذ باللہ قرآن کریم سے آیات حذف کرنے کی ناپاک کوشش بھی کی گئی۔ مودی سرکار اور انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نزدیک پاکستان کا ذکر دراصل ’’پیغام جنگ‘‘ ہے، جن کا یہ تصور ہے وہ غلطی میں مبتلا ہیں، انتہاپسند ہندوئوں کے نزدیک تو ہمارا ہر قول و فعل ’پیغام جنگ‘ لگتا ہے، وہ اُس وقت تک میٹھی نیند نہیں سوسکتا جب تک ہم بالکل نیست و نابود نہ ہوجائیں،

مگر ہمارے عزائم ہرگز غاصبانہ نہیں، ہمیں عام ہندوئوں یا بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے کبھی بھی تعرض نہیں کہ وہ بھارت میں کیا کرتے ہیں، لیکن بحیثیت مسلم جب دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں کو وجۂ نفرت بناکر جبر اور ظلم کیا جائے گا تو پاکستانی ہی نہیں بلکہ مسلم اکثریتی ممالک کا ایک عام مسلمان بھی درد سے تلملا اٹھے گا۔ پاکستان دنیا کی ہر ریاست کا احترام اور اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتا ہے، خطے میں قیام امن کے لئے مثبت کوشش کسی بھی ملک سے جڑی ہو، اس کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں، قیام پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے سے تعبیر ہے، مقبوضہ کشمیر پر جبراً بزور طاقت قبضہ قابلِ قبول نہیں، بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے خلاف ہتک و نفرت انگیز کارروائیاں انسانی و مذہبی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔ پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے برابری کی سطح اور خودمختاری کی پری سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے تو مودی سرکار سمیت کسی بھی ملک کو چیں بہ جبیں نہ ہونا چاہیے، بلکہ ہم مشربی کے تقاضے سے ہمارے ارادوں کو مرحبا کہتے ہوئے کامیابی کا ’آشیرواد‘ دینی چاہیے۔ پاکستان بن چکا،

اب یہ حقیقت ہے اس کو بدلا نہیں جاسکتا، مملکت کی جداگانہ ہستی پر کسی کو بھی اب ملال نہیں ہونا چاہیے، تاریخ ثابت کرچکی کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہوچکا تھا، انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانانِ ہند پر روزِ روشن کی طرح ثابت کردیا تھا کہ وہ ناصرف غاصب اور خائن بلکہ بدترین قسم کے دشمن اور ستم گر بھی ہیں، مودی سرکار کے حواری کس منہ سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم بے زبان جانور کی طرح جورو تعدّی سہتے رہیں اور اپنی زیست و حیات کا سرمایہ بی جے پی، آر ایس ایس کے ہاتھوں میں دے کر اس کے رحم و کرم کی راہ گداگروں کی طرح تکتے پھریں، یہ اَمر طبیعت پر اور بھی ناگوار گزرتا ہے، جب یہ خیال آتا ہے کہ یہ رویہ ان لوگوں نے اختیار کیا جو ہزارہا سال سے غلامی کی روزی کھاکھا کر عالی حوصلگی، بلند ہمتی، رواداری، بردباری، سیرچشمی اور جہان بانی کے محاسن سے قطعاً عاری اور مفلس ہوچکے تھے اور ہیں،

ایسے انتہاپسند ہندوئوں اور غاصب مودی سرکار سے کسی دلداری کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ برصغیر ہند میں ہمارے بزرگوں نے قریباً ایک ہزار سال اسلام کا جھنڈا لہرایا اور وہ ہندوئوں کی کثرت اور برافروختگی سے مبہوت نہیں ہوئے تھے، تو آج ہم کس طرح اپنی زیست و حیات کی بقا اور مذہب و ملت کے احیا کے لئے انتہاپسند ہندوئوں کی خوشنودی اور منظوری حاصل کرنے کی خاطر مقبوضہ کشمیر کے حق خودارادیت سے دست بردار ہوجائیں، ہمارے نزدیک جموں و کشمیر کے حق خودارادیت کو ناممکن العمل کہنا عزم و ہمت کی کوتاہی کی دلیل ہے، جو قوم زندہ دل رکھتی ہے وہ موت سے کھیلنا اپنی آبرو کا نشان سمجھتی ہے اور اس کے لئے کسی چیز کے حصول کا خیال بفضل ایزدی ’ناممکن‘ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر، بھارت سے کلیتاً ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے علیحدگی کا مدعی ہے اور کشمیری ’’بھارتی قومیت‘‘ کا عنصر بننے سے صریحاً انکار کرتے ہیں۔ تاریخی، جغرافیائی، نسل اور ثقافتی لحاظ سے کشمیر بھارت کا حصہ کبھی قرار نہیں دیا جاسکتا، تو کیا وجہ ہے اُسے حق زیست سے محروم کیا جائے اور خوامخواہ اسے غلام آباد بھارت کی قسمت سے وابستہ کیا جائے۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55109