Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مہنگائی غربت بے بسی اور بے حسی کی کہانی

شیئر کریں:

شاہ عالم علیمی یہ میں اور چچا خدا بخش اتفاق سے ایک ساتھ مقامی یوٹیلٹی اسٹور میں داخل ہورہے ہیں۔ چچا خدا بخش میرے ہمسائے ہیں اور اسلام آباد کے نواحی علاقے میں یہ یوٹیلٹی اسٹور اگرچہ ہمارے گھر سے کافی دور ہے لیکن بیس روپے بچانے کے چکر میں، میں اور چچا خدا بخش اور بیسیوں دوسرے لوگ اس سرکاری اسٹور سے ہی سودا سلف لیتے رہے ہیں۔ دو سال پہلے تک ہمارے گھر کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک اسٹور ہوا کرتا تھا لیکن پھر تبدیلی ائی اور وہ اسٹور ختم کردیا گیا۔ صرف وہ نہیں بلکہ ملک بھر میں سینکڑوں ایسے ہی یوٹیلیٹی اسٹورز ختم کردیے گئے۔

یہ اسٹور سابق امر جنرل پرویز مشرف کے برامد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز کے دماغی اختراع تھے اور ان چند اچھے کاموں میں سے تھے جو امروں اور ان کے ٹکنوکریٹ مددگاروں نے کیا۔ خیر دیکھیئے اج یہ اسٹور بھی خالی خالی نظر ارہا ہے۔ دو مہینے پہلے تک اس اسٹور میں چیزیں دستیاب ہوتی تھیں اج الماریاں خالی پڑی ہیں۔ چچا خدا بخش کو ایک تھیلا اٹا ایک کلو گھی ایک دو کلو چاول چاہیے۔ تینوں اشیا غائب ہیں۔ مجھے جو چار پانچ چیزیں چاہیے ان میں سے صرف ایک دستیاب ہے۔ چچا بخش کے چہرے پر پریشانی تو دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ہی میں نے محسوس کیا تھا جب انھوں نے فکرمند انکھیں اٹھائے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے ‘کی حال اے پتر تاڑا’ کہا تھا اور پھر میرے پوچھنے پر ‘شکر، شکر’ کا تکرار کرکے خاموش ہوئے تھے۔

مقامی محاورے میں شکر عام مستعمل ہے جس کا مطلب ضروری نہیں کہ بندہ بالکل خوش باش اور خوشحال ہے بس کسی بھی حال میں شکر کرتے رہنا چاہیے۔ یہی صابرین کا طرز کلام ہوتا ہے۔ مگر چچا خدابخش کو شکر یعنی چینی بھی چاہیے جس کے بیغیر چچا صبح ناشتے میں ایک ادھ پراٹھہ کے ساتھ چائے نہیں پی سکتا مگر چینی دستیاب نہیں ہے۔”ابھی ابھی ختم ہوگئی جناب”۔ یہ اسٹور کے سنئیر مینجر مجھے بتارہا ہے۔ چچا خدا بخش پریشانی کی وجہ سے خاموش ہے۔ کیونکہ صبح صبح میں نے خود اپنے ہمسائے شہزاد صاب کی دوکان سے چینی خریدی تھی ایک کلو 160 روپے تھا۔ شہزاد صاب نے کہا، شاہ صاب 170 کی ہوگئی ہے آپ کو 160 کا دے رہا ہوں۔ میں نے کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ اج کل ہر صبح اٹھتے ہی اپ کسی اور چیز کی توقع کریں یا نہ کریں لیکن تبدیلی کی توقع ضرور رکھ سکتے ہیں۔ یعنی تبدیلی ہر صبح شام دوپہر ہر وقت اتی رہتی ہے،  اس دن رات کو پٹرول پر اٹھ روپے فی لیٹر کے ساتھ ائی تھی۔ 
بہرحال یوٹیلٹی اسٹور کے سنئیر منیجر سے میں پوچھ رہا ہوں،  “لیکن جناب گھی چاول دالیں اٹا کچھ بھی نہیں ہے اپ کے پاس”؟      “اٹا تو دو مہینے سے نہیں ارہا میں تو مسلسل ریکوسٹ request  بھیج رہا ہوں لیکن نہیں ارہا ہے”۔ یہ صاحب مسکراتے ہوئے مجھے بتارہا ہے۔ ماحول مایوس کن ہے اور اس میں چچا خدا بخش کے فکرمند چہرے نے مزید اضافہ کیا ہوا ہے۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے کیونکہ میں ایک اکیلے ویلے ادمی ہوں۔ چچا خدا بخش کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں ایک عدد بیگم بھی ہے۔ دو بچے بالترتیب ساڑھے سات اور نو سال کے ہیں اور بچیاں بھی کچھ بڑی نہیں دس گیارہ بارہ سال کی ہوں گی۔

چچا ابھی ساٹھ سال کی عمر میں داخل ہوچکے ہیں۔ چند سال پہلے تک ایک پرائیوٹ کمپنی میں کام کرتے تھے پھر ‘ضعیف العمری’ کی وجہ سے کمزور پڑ گئے اور کمپنی نے کام سے نکال دیا اور اب چچا ایک ریڑھی پر کچھ پھل فروٹ بیج کر گزارا کررہے ہیں۔ اسٹور سے میں نے ایک دو چیزیں خرید کر کاونٹر پر بل دینے ایا تو رسید میں ایک فقرے کا اضافہ تھا یعنی “سبسڈی-29 روہے”۔ مجھے انتیس روپے کی سبسڈی ملی ہے۔ مگر غور کرنے سے مضحکہ خیز معاملہ، معاف کیجئے گا، تبدیلی نظر اتی ہے۔ یعنی جس چیز کی قیمت ایک سو ستر روپے تھی اس کی قیمت پہلے دو سو اسی روپے کردی گئی ہے۔ اور پھر اس دو سو اسی روپے میں سے مجھے  سبسڈی ملی ہے۔ دس روپے بقایا نقدی کے بجائے ٹافیاں پکڑائی جا رہی ہے۔

دل کرتا ہے ناناپٹیکر کی طرح پوچھوں’ کیا ہے یہ!  لیکن خیر یہ ہم خودی کو بلند کرکے  اس اسٹور سے نکل ائے۔ اسٹور کے منیجر نے مزید بتایا تھا کہ اٹا آ بھی جائے تو ہمارا کوٹہ ایک سو چالیس تھیلا ہے اور وہ اس پورے شہر کے لئے ناکافی ہے۔ فقط ایک سو چالیس تھیلا!  مجھے معلوم ہے چند مہینے پہلے رمضان کے مہینے سبسڈائیزڈ subsidized  چینی اٹا لینے کے لئے خواتین و حضرات یہاں ہی باہر ایک ادھ کلو میٹر لمبی لائن لگاکر کھڑے رہتے تھے۔ میں نے ان کی ایک عدد تصویر کھینچی تھی اور دل ہی دل میں کہا تھا اس قوم کی قسمت میں زلت و رسوائی ہی کیوں لکھی ہے؟  خیر اج کل ایک طرف مہنگائی اور بےروزگاری کی چیخ و پکار ہے تو دوسری طرف بتایا جارہا ہے کہ دنیا میں جو مہنگائی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان میں تو ہے ہی نہیں۔

بہرحال ان کی بات بھی صیح ہوسکتی ہے اور ان کی بھی۔ کیونکہ اج تک اس ملک میں کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا جس کی بات غلط ہوئی ہو۔ دوسری طرف زمانہ ایسا ہے کہ یہاں سارے دلیل بیکار اور ساری منطق فضول ہے۔ آپ کہہ دیں کہ امریکہ میں مہنگائی ہے تو روزگار بھی تو ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی ہے تو سہولیات بھی تو ہے سعودیہ میں مہنگائی ہے تو لوگوں کو ریاست مدد بھی فراہم کررہی ہے۔ ایران میں مہنگائی ہے تو سوشیل سکیورٹی بھی تو ہے۔ بنگلادیش میں مہنگائی ہے تو کم از کم امدنی بھی تو ہے۔۔۔۔

سب بیکار ہے سب فضول ہے۔ یہ کہنا بھی فضول ہے کہ چینی Chinese مزدور کے پانچ دن کی تنخواہ اور پاکستانی مزدور کے مہینے یا ایک سوئزرلینڈ کے ایک شہری کے ایک گھنٹہ کی تنخواہ اور پاکستانی مزدور کے ایک مہینہ کی تنخواہ برابر ہے۔ یہ سب بھی دیوانے کی بھڑ ہے یا طوطی کی اواز نقار خانے میں۔ بھلا شاہ جہاں یا جلال الدین اکبر اور ان کے چیلوں کا عوام الناس کے مسائل سے کیا دلچسپی؟  زیادہ سے زیادہ ہمدردی ہو تو حاکم وقت مہنگائی کو ٹالنے کے لئے صدقہ خیرات دے سکتا ہے بس!  دیکھ لیں ڈالر 178 پر ہے مہنگائی بے روزگاری اور غربت ہمالیہ کی چوٹی سے اوپر گئی لیکن دوسری طرف فارما کمپنیوں شوگر مافیا اور ایگریکلچر مافیا اور رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکونز اور دوسرے مافیاز کے وارے نیارے ہورہے ہیں۔ اور سب پر مستزاد حاکم وقت کی بے حسی (بے بسی؟) معنی خیز ہے!  


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
54855