Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں ! – قادر خان یوسف زئی

شیئر کریں:



 ملک میں ہنگامہ آرائیوں کے شعلے بھڑکتے گئے اور بھڑکائے چلے جارہے ہیں، عوام کی خاموش اکثریت اداسی سے معمور ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے بمشل، لب ِ دوز(بظاہر) محو تما شا ہے۔ احساس ہے کہ ان کے دل پر کیا گذر رہی ہے کیا کسی کومعلوم؟۔  اس طبقے کی تعجب انگیز، غیر متوقع خاموشی پر احباب کی طرف سے استفسارات، تقاضے، مطالبے، مشورے، شکوے بلکہ شکایت ہائے رنگین اور بعض گوشوں کی طرف سے طنز و طعن کے تیر و نشتر تک موصول ہو رہے ہیں اور یہ،  ان سب کے باوجود لب بند ہیں، قلم میں ایسی سیاہی سے محروم جس کے حروف تاریکی میں اجالے کا گماں دیں۔جہاں تک ملک میں برپا ہونے والے خلفشار اور انتشار سے اثر پزیر ہونے کا تعلق ہے، یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ بہت کم قلوب ہوں گے جو اس جیسے وقفِ کرب و اضطراب ہوں اور اس کی وجہ ظاہر ہے۔پاکستان کا وجود ہمارے نزدیک اس خطہ ئ زمین کے تحفظ، بقا اور استحکام کی اہمیت کس قدر ہے، اگر (خدانکردہ) اس خطہئ زمین کو کچھ گزند پہنچ گیا تو، اوروں کی تو شاید دنیا ہی اجڑے گی، ہم جیسوں کی تو (محارہ کے مطابق) دین و دنیا دونوں ویران ہوجائیں گے، جو کچھ ملک میں ہورہا ہے اس سے ہمارا قلب ِحزیں قیامت کی گذرگاہ بن رہا ہے، لیکن اس کے باوجود۔۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
 ورنہ کیا بات کر نہیں آتی؟


اور وہ بات جس کی وجہ سے ہم جیسوں کو اسی چپ لگی ہے، کوئی سراسر پردہ نہیں۔ کوئی ایسا راز نہیں جسے کھلے بندوں کہا نہ جاسکے، بات بالکل صاف اور واضح ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی مفاد پرستیوں کے نشہ میں بدمست ہیں اور کچھ مشتعل، جذبات کے جنون میں پاگل ہو رہے ہیں۔ آپ سوچئے کہ جو شخص ” کسی نشے میں دُھت‘ یا شدت جنون میں ہلڑ مچا رہا ہو اُسے ایسی حالت میں کوئی نصیحت بھی کار گر ہوسکتی ہے؟۔ ایسی حالت میں ہر نصیحت بیکار اور ہر مشورہ عبث ہوتا ہے۔بے کار اور عبث ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کچھ اور۔ لہذا ایسے حالات میں خاموشی کے سوا کوئی چارہ ئ کار نہیں ہوتا، اگرچہ اس قسم کی خاموشی مغز ِ استخواں تک کو جلا کر راکھ کردیتی ہے بقول غالب۔۔
گر    نگاہ ِ کرم     فرماتی     رہی    تعلیم ضبط
شعلہ خس میں جیسے، خوں رگ میں نہاں ہوجائے گا


اس وقت ملک کی خاموش اکثریت ہی واحد ایسا طبقہ ہے جسے کچھ بتانا اور سمجھنا مفید ہوسکتا ہے، ورنہ  انتظار میں رہیں کہ مدہوشوں کا نشہ اُترے اور موسم ِ جنون کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئے تو  ان سے کہاجاسکے کہ ذرا دیکھو کہ تم نے جو گھر اجاڑا ہے، خود تمہارا اپنا گھر ہی تو نہیں۔ یہ اَمر باعث اطمینان بھی ہے کہ ملک کی ساری آبادی اس جنون کا شکار نہیں ہو رہی، اس نشہ میں مدہوش یا جنون میں مبتلا تو ملک کی 22کروڑ آبادی کا اقل ِ قلیل حصہ ہے،شاید چند ہزار۔۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی بقایا، اس قدر کثیر آبادی کیا سوچ رہی اور کیا کررہی ہے، اس پر مایوسی کیوں طاری ہے، آپ اس طبقہ ِ ساکت و صامت کے کسی بھی فرد سے بھی ملیں گے تو اس کے لب پر پہلا سوال یہ ہوگا کہ ”اب کیا ہوگا؟ “، اس ملک کا کیا بنے گا۔


 مشکلات ہزار پیش آئیں اگر ا ن کا حل آپ کے سامنے ہے تو آپ پر کبھی مایوسی طاری نہیں ہوگی، مایوسی اس قت طاری ہوگی جب کسی مشکل کا حل سمجھ میں نہ آئے۔منزل کتنی ہی دور کیوں نہ ہو اور آپ کتنے تھکے ہوئے بھی کیوں نہ ہو، اگر اس تک پہنچنے کا راستہ آپ کے سامنے ہے، تو آپ کچھ وقت تک سستانے کے لئے بیٹھ جائیں تو اور بات ہے، آپ مایوس نہیں ہوں گے، آپ مایوس اس وقت ہوں گے جب آپ کو کوئی راستہ نظر نہ آئے۔قوم کے اس کثیر حصہ کی جس کا میں ذکر کررہا ہوں، اس وقت یہی حالت ہے۔ یہ جو ہر شخص سرتا پا سوال ہے کہ ”اب کیا ہوگا“، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس تباہی سے نکلنے کا کوئی راستہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ دبے لفظوں میں بتانے کا مقصد یہی ہے کہ اپنی فکر کو خود ساختہ تبدیلی سے آزاد کریں، تاکہ جن راستوں کو بند دیکھ کر مایوسی چھا رہی ہے اس کی گرد ہٹائی جاسکے۔ ہم سب کی یکساں خواہش ہے کہ یہ خطہ ئ  زمین محفو ظ رہ جائے اور اللہ تعالی ابدالآباد تک محفوظ رکھے اور یہاں ایسا طبقہ تبدیلی کے سحر سے باہر نکلے، جو نہ خود غرض، مفاد پرست ہو اور نہ ہی طاقت کے نشے میں اپنے ہواس و حواس کھو بیٹھے۔


اَنا پرست نظاممیں سیاسی جماعتوں میں باہمی جذبات ِ نفرت اور عدوات مستقل شکل اختیار کرلیتے ہیں، جن کا مظاہرہ روزمرّہ کی زندگی میں بالعموم اور پارلیمان کے ایوانات میں بالخصوص سال بھر ہوتا رہتا ہے۔ بعض اوقات تصادم اس قدر شدت اختیار کرجاتا ہے کہ جنگ کی سی شکل پیدا ہوجاتی ہے، حزب ِ اقتدار کو قانون، پولیس یا فوج کی قوت حاصل ہوتی ہے، حزب ِ اختلاف کے پاس یہ کچھ نہیں ہوتا، وہ ان کے مقابل، عوام کے جذبات کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، مزاحمت میں قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوجاتا ہے، املاک ضائع ہوتی ہیں، نظم و نسق درہم برہم ہوجاتا ہے، ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے، اس تصادمات میں ملک کی آبادی کا بہت قلیل حصہ ملوث ہوتا ہے، ملک کی کثیر آبادی ان سے الگ اور ان ہنگاموں کے سخت خلاف ہوتی ہے، ان حالات میں ان کی نظریں تیسری قوت کی جانب اٹھتی ہیں کہ بطور ثالث کی حیثیت اختیار کرے اورکشتی لڑنے والے ان دو پہلوانوں کو چھڑا دے۔ ثالث یا مفاہمت کے نہ ہونے سے دو افراد کے درمیا ن لڑائی سے صرف  ان  کا نقصان ہوگا، لیکن حزب ِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف کے تصادمات سے ملک برباد اور قوم تباہ ہوجاتی ہے، قوم کا وہ امن پسند طبقہ، جس کا ا ن متصادم گروہوں کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا، بھلا وہ ملک اور قوم کی اس تباہی پر خون کے آنسو کب تک بہاتا رہے۔


شیئر کریں: