Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاستدانوں کی دلچسپ پیش گوئیاں۔محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر زراعت منظور وسان نے اپنی تازہ پیشگوئی میں پانچویں مرتبہ حکومت جانے کی نوید سنائی ہے۔ کہتے ہیں کہ سلیکٹ ہونے والوں کی حکومت کی مہلت پوری ہوگئی اب الیکٹ ہونے والوں کا دور شروع ہوگا۔انہوں نے حکومت سلیکٹ کرنے والوں کو نماز پڑھنے اور توبہ استعفار کرنے کا مشورہ بھی دیدیا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات انہوں نے یہ کہہ دی کہ عنقریب ملک میں انتخابات ہوں گے جس کی جتنی سیٹیں ہونگی اس کے بعد طے کیا جائے گا کہ کس کو حکومت دینی ہے،ہوسکتا ہے کہ آئندہ سیٹ اپ میں پی پی پی اورن لیگ مشترکہ طور پر حکومت بنائیں یا پھر اپوزیشن میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔وزیراعظم سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ مجھے کپتان کا مستقبل غیر یقینی اور کھلاڑیوں کاتابناک نظر آرہا ہے،

انہوں نے انکشاف کیا کہ وفاقی کابینہ میں شامل کچھ وزراء عمران خان کے فیصلوں سے متفق نہیں ہیں، وہ مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ جب کشتی ڈوبنے والی ہو تواس میں سوار افراد بہانہ بناکر کود جاتے ہیں۔منظور وسان کا دعویٰ ہے کہ ان کی سو فیصد پیشگوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو ہی نہیں سکتی کہ ملک میں انتخابات ہوں گے جو پارٹی اکثریت حاصل کرے گی وہ حکومت بنائے گی۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو اگر اقتدار میں آنے کی مطلوبہ اکثریت نہیں ملی تو وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گی۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے ایک سینئر وزیر نے جوابی پیش گوئی میں انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں مزید دھڑے بندیاں ہونے والی ہیں۔کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر آنے والے ہیں اور ان مقدمات میں ملوث اپوزیشن کے آدھے لیڈرز جیل کی سلاخوں کے پیچھے جائیں گے اور ان کی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں امیدوار ہی نہیں ملیں گے۔

سیاست دانوں کی پیش گوئیوں کے برعکس برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔یہاں کے معروضی حالات دیگر جمہوری ملکوں سے بہت مختلف ہیں۔ دنیا کی دیگر جمہوریاؤں میں لوگ کارکردگی اور قابلیت کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دوستی، رشتہ داری، قومیت، علاقائیت، لسانیت، مسلک، فرقے اور وقتی مفادات کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تعلیم ،کارکردگی اور قومی خدمت کے جذبے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ امیدوار کی مالی حیثیت، پارٹی قیادت کے ساتھ غیر مشروط وابستگی رکھنے والے اور الیکٹ ایبلز کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔ اور یہی الیکٹ ایبل لوگ ہی گذشتہ پانچ چھ عشروں سے ایوان ہائے اقتدارمیں دکھائی دیتے ہیں۔ ہر پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملالے۔ اور اس کام کے لئے وہ انہیں پارٹی ٹکٹ، من پسند وزارت کے علاوہ پرکشش مراعات کی پیش کش کرتی ہیں۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے بیس فیصد سیاست دان ہر پانچ سال بعد پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں سیاسی پارٹیوں میں الیکٹ ایبلز کی بھی پی ایس ایل اور آئی پی ایل کی طرح ڈرافٹنگ ہوگی۔سیاست دانوں کے لئے پلاٹینئم، گولڈ اور براؤنز گروپ ہوں گے۔ جو پارٹی زیادہ بولی دے گی وہی مشہور امیدوارخرید سکے گی۔ تاہم اس سیاسی رجحان سے سیاسی جلسے، جلوسوں، ریلیوں، زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کی گونج ختم ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ یہ کام پارٹی کے کارکن سرانجام دیتے ہیں جنہیں ہم عرف عام میں جیالے، ٹائیگرز، یوتھیے، سرفروش، جانثاروغیرہ کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ان کارکنوں کو اپنی قربانیوں کے صلے میں پارٹی ٹکٹ ملنے کی توقع ہوتی ہے جب یہ توقع ہی اٹھ جائے تو پارٹیاں جانثار کارکنوں سے محروم ہوسکتی ہیں۔ایسی بھیانک صورتحال کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔


شیئر کریں: