Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مارچ، احتجاج، دھرنے اور عوامی مسائل -پروفیسر عبد الشکور شاہ

شیئر کریں:

میں 1215کسانوں نے نوابوں اور جاگیردارانہ مظالم کے خلاف احتجاجی دھرنے دیے۔یورپ میں طاعون کی وباء (بلیک ڈیتھ)کے تین عشروں بعد1381میں طبقاتی نظام اور کسانوں کے استحصال کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا گیا جسے ہم پیزنٹ ریولٹ کے نام سے جانتے ہیں۔1517میں مارٹن لتھر کنگ نے سیاہ فام لوگوں کے حقوق اور کیتھولک چرچ کی اجارہ داری کے خلاف دھرنے دیے۔1773میں بوسٹن ٹی پارٹی کے نام سے ہونے والے دھرنے نمائندگی کے بغیر ٹیکسوں کی ادائیگی کے خلاف دیے گئے۔1778-1799میں انقلاب فرانس،1812میں لیدیٹس احتجاج مزدوروں کے حقوق اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے جنم لینے والی بے روزگاری کے خلاف کیا گیا جس نے بعد میں برطانوی مزدور تحریک کی شکل اختیار کر لی۔1913 میں سفرریگیٹس احتجاجی دھرنے خواتین کو ووٹ کا حق دلانے کی خاطر دیے گے۔ 1960 کی دہائی میں سول رائٹس کے لیے احتجاجی دھرنے دیے گئے ان کے مقاصد میں سیاہ فاموں کوامریکہ میں ووٹ، نوکری اور دیگر بنیادی حقوق کا حصول شامل تھا۔1964 اور 1989 میں جمہوریت کی بحالی کے احتجاجی دھرنے دیے گے.

۔ 1980 اور 1990 کے دوران معیار زندگی میں بہتری کے لیے احتجاجی دھرنے دیے گے۔ سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ 2011 میں حسنی مبارک کے خلاف احتجاج ہوا اور پھر یہ سلسلہ یوں چل پڑا جس کاماضی میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں جنرل سکندر مرزا کے دور حکومت میں 1956-1958  کے دوران احتجاجی دھرنے دیے گئے جو 1958 میں مارشل لاء کا سبب بنے۔ 1965 کی جنگ کے بعد مہنگائی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے احتجاجی دھرنے دیے گے۔1968 میں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کی وجہ سے یہ تحریک زور پکڑ گئی اور ذولفقار علی بھٹو بھی اس تحریک کا حصہ بنے۔ 1977میں ذولفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائینس نے احتجاج شرو ع کیا، اگرچہ بھٹو صاحب معاملات طے کرنے ہی والے تھے مگر جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹ دیا۔ 1981میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوئی جو 1985 کے جنرل الیکشن کے اعلان کے ساتھ ختم ہو گئی.

۔ 1992میں محترمہ بینظیر بھٹو نے نوازشریف حکومت کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی۔محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بار پھر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں جنرل کاکڑ نے نواز شریف صاحب کو استعفی دینے پر مجبور کیا۔2008میں جنرل مشرف نے ججوں کو برطرف کر دیا تو ججز اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک حتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ 2013میں ہزارہ برادی نے کوئٹہ بم دھماکے کے شہداء کی لاشیں رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا۔ 2013-14میں گم شدہ افراد کے حق میں احتجاجی دھرنے دیے گئے۔ 2013-14 کو دھرنوں کا سال ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس عرصے میں پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری نے ماڈل ٹاون سانحہ اور آئینی ترمیمات کے لیے دھرنا دیا۔ پی ٹی آئی نے الیکشن میں دھاندلی اور کرپشن کے خلاف ایک بڑا اور لمبا دھرنا دیا۔ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ یوں چلتا رہا اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے الیکشن دھاندلی کے الزامات لگا کر دھرنے دینا شروع کر دیے۔ مولاناخادم حسین رضوی صاحب نے ختم نبوت کے لیے دو سے زیادہ مرتبہ اسلام آبادمیں دھرنے دیے۔ سیاسی پارٹیوں نے پی ڈی ایم کے نام سے مشترکہ محاذ بنا کر ملک بھر میں احتجاجی دھرنے اور جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

ہزارہ برادری نے دوسری بارلاشیں رکھ کر دھرنا دیا جو کے مطالبات تسلیم ہونے پر ختم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بے شمار چھوٹے دھرنے بھی ہوتے رہے اور ابھی کچھ مقامات پر ہو بھی رہے ہیں۔تحریک لبیک پاکستان نے گزشتہ کچھ دنوں سے پھر مارچ کا آغاز کر دیا ہے۔ مختلف مقامات پر افسوس ناک واقعات بھی پیش آئے جن کا ازالہ کر نا ناممکن ہے۔ پرامن احتجاج کے لیے جگہ فراہم کرنے کا اعلان کرنے والی پی ٹی آئی اب کنٹینرز لگانے، خندقیں کھودنے اور رینجرز بلانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ نیٹ ورک اور سڑکوں کی بندش کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہے۔ کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے پہلے ہی بہت متاثر ہو چکے ہیں۔ اب احتجاج کے نام پر تعلیم ادارون کی بندش سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان میں ہر دھرنا عام آدمی کی بہتری کے نام پر دیا جاتا ہے مگر اپنی جیبیں گرم کرنے کے بعد معاہدے ہو جاتے ہیں اور عام آدمی جوں کا توں روتا پیٹتا رہ جاتا ہے۔مذہبی جماعتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور مذہب کے نام پر عوام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا دونوں کسی بھی لحاظ سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔تمام پارٹیاں اپنے مفادات کے لیے مارچ کرتے، دھرنے دیتے اور احتجاج کرتے ملک اور عوام کی خاطر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ محکمہ صحت اپنی تنخواہیں بڑھانے، الاونس بڑھانے اوردیگر مراعات کے لیے دھرنے دیتا مگر ہسپتال بنانے، ہسپتالوں میں بہتری لانے، مریضوں کے لیے سہولیات کی فراہمی کے لیے دھرنے نہیں دیے جاتے۔

محکمہ بلدیہ دھرنے دیتا تو اپنی تنخواہوں کے لیے دیتا ملک میں صفائی کا نظام بہتر بنانے کے لیے نہیں دیتا۔ واپڈا ملازمین اپنی نوکریاں پکی کروانے، تنخواہیں بڑھانے، الاونس لینے اور دیگر سہولیات کیلیے  دھرنے دیتے مگر بجلی کی کمی پوری کرنے، بجلی کا نظام درست کروانے، لوڈشیڈنگ ختم کرنے، نئے ڈیم بنوانے، بلات میں غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے تو کبھی دھرنے نہیں دیے۔ واسا والے بھی ذاتی مفادات کے لیے دھرنے دیتے مگر ملکی اور قومی مفادات کے لیے کبھی گھر سے باہر نکلنا گوارہ نہیں کیا۔ اساتذہ اپنی تنخواہیں بڑھانے، سکیل اپگریڈ کروانے، مراعات، سہولیات اور الاونس کے لیے دھرنے دیتے۔ انہوں نے کبھی نظام تعلیم میں بہتری، اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے، سکولوں میں سہولیات کی فراہمی کے لیے، آبادی کے تناسب سے سکولوں کی تعمیر کے لیے، سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں لانے کے لیے، طریقہ تدریس میں بہتری لانے کے لیے، حاضری کویقینی بنانے کے لیے کبھی دھرنا نہیں دیا۔ یہ سب مفاداتی اور ذاتی دھرنے ہیں۔ سیاست دانوں نے دوسری حکومت گانے اور اپنی حکومت لانے کے لیے دھرنے بھی دیے ہیں، احتجاج بھی کیے ہیں مگر عوام کی بہتری کے لیے صرف لولی پاپ۔ عوامی نام پر دیے جانے والے دھرنے بھی ذاتی مفادات کے لیے ہو تے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے مہنگائی، ناانصافی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی، ناخواندگی او ر صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف نہ تو کبھی اتحاد بنایا اور نہ ہی دھرنے دیے۔

ہم لاقانونیت کے خلاف دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ ہم ظلم و جبر کے خلاف دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ ہم بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ کیونکہ یہ عوام کا مسلہ ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ جو موروثی سیاست کے زریعے عوام پر مسلط ہے یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ نسل در نسل حکمرانی کرنے والے تو مہنگائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ امیروں کے کتے موج کر تے ہیں جب کے غریب کی دہلیز پربھوک و افلاس کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ جنہوں نے کبھی بھوک دیکھی ہی نہیں وہ بھوکوں کا غم کیسے سمجھیں گے۔ جنہوں نے کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ہی نہیں کیا وہ عوام کی سفری مشکلات کو کیسے سمجھ سکتے۔ جنہوں نے کبھی زندگی میں خود سبزی یا فروٹ منڈی جا کرخریداری نہیں کی انکو مہنگائی کا کیسے علم ہو گا۔ جنہوں نے کبھی مزدور کی طرح دیہاڑی لگائی ہی نہیں وہ مزدور کے مسائل کو کیسے سمجھ سکتے۔عوامی ٹیکسوں سے بنے ذاتی محلات میں رہنے والے کرائے کے مکانوں میں گزارہ کرنے  والوں، بے گھر جھگیوں میں بسنے والوں اور بے آسرا فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے مسائل کو کیسے سمجھ سکتے۔ یہ سب غریب، بے بس، مظلوم عوام، ملک و قوم، مذہب و برابری کے نام پر دھرنے دیتے، اپنی جیبں بھرتے، مراعات لیتے، الاونس میں اضافہ کرواتے، سکیل اپ گریڈ کرواتے اور پھر رفو چکر ہو جاتے۔ پاکستان میں دھرنا مافیا ایک ہتھیار بن چکا ہے اگر اسے بروقت نہ روکا گیا تو ملک ان دھرنا پرستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو تا رہے گا اور یہ دھرنا پرست مافیا محض اپنے مفادات کے لیے دھرنے دیتا ملکی یا قومی مفاد سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔


شیئر کریں: