Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بنیادی انسانی حقوق – تحریر:صوفی محمد اسلم

شیئر کریں:

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ لگانے کیلئے پاسداری انسانی بنیادی حقوق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی معاشرہ/ملک کو ترق ی یافتہ اور مہذب نہیں کہا جاسکتا جہاں انسانی بنیادی حقوق کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔  بنیادی انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو ہمارے پاس صرف اس لیے ہیں کہ ہم بطور انسان دنیا میں موجود ہیں۔ وہ کسی ریاست اور حکومت کی طرف سے نہیں دیے گئے ہیں بالکہ یہ آفاقی ہیں جو ہم سب کے لیے موروثی ہیں ، قومیت ، جنس، نسل ، رنگ ، مذہب ، زبان ، یا کسی اور حیثیت سے بلاتر ہیں۔ انسان کے پیدائیش سے لیکر موت تک جو بنیادی حقوق ہیں، ہر شخض ان حقوق کا حقدار ہے، چاہیے وہ جس ملک، شہر اور قوم سے رکھتا ہو۔ ایک معربی فلسفی کہتا ہے حقوق معاشرتی ذندگی کے نہایت ضروری لوازمات ہیں جن کے بغیر کوئ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاسکتا۔ایک اور مفکر کہتا ہے کہ ایک متوازن زندگی کی قیام اور انسان کی تکمیل کیلئے انسانی بنیادی حقوق ضروری لوازمات کا درجہ رکھتا ہے۔بنیادی انسانی حقوق کو کسی شخض تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے کا کسی کو بھی حق حاصل نہیں۔

جہاں باضابطہ انسانی حقوق کے نظریہ کی بات کی جائے تو اس کے متعلق  اختلاف رائے پایا جاتےہیں جیسے کوئ کہتا ہے کہ ان حقوق کا باضابطہ اغاز یونان سے ہوا ہے۔ کوئ اقوام متحدہ کےمنشور انسانی حقوق کے منظوری کے تاریخ کو اس نظریہ کا بنیادسمجھتے ہیں اور کوئی اسلامی تعلیمات میں بھی انسانی حقوق کی ادائیگی سے متعلق مفصل احکامات کو  بنیادی ابتدائی نطریہ سمجھتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ  انسان دنیا میں تشریف لایا اور یہاں معاشرہ تشکیل پائ۔ جہاں وہ اپنی ضروریات ،حقوق اور زمہ داریوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے ۔ ارتقاء انسانی حقوق کو ثابت کرنے کے لئے تحریری منشور کی ضروت نہیں بلکہ  انسان کے روایات،  رسم رواج، اور ثقافت بیان کرتے ہیں کہ انسان کی ابتدائ تاریخ  سے ہی یہ بنیادی حقوق اسے حاصل ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ماضی میں اکثر یہ حقوق کسی نہ کسی صورت میں پامال ہوتے رہے ہیں۔ جیسے مشہور فلسفی جین جیکس روسو کہتا ہے کہ انسان ازاد پیدا ہوا ہے مگر اج کل وہ ہرجگہ زنجیروں میں جگڑا ہوا ہے۔سیموئل موئن کہتا ہے کہ انسانی حقوق کا تصور شہریت کے جدید احساس کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، جو پچھلے چند سو سالوں تک سامنے نہیں آیا۔ بہر حال قبل ازدور جدید  میں اس سے متعلقہ مثالیں موجود ہیں  البتہ قدیم لوگوں کے پاس آفاقی انسانی حقوق کا جدید دور کی طرح کا تصور نہیں تھا۔

اسلام حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ تعمیل حقوق العباد کے سلسلے میں ایک وسیع نظام متعارف کرایا گیا جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے اپس کے معاملات سے لیکر غیر مسلم کے بھی حقوق واضح کیے گئے ۔ رشتہ داروں، ہمسائوں، یتیموں، بیوائوں یہاں تک کہ جنگی قیدیوں کے بھی بنیادی حقوق کی پاسدار اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے

خطبہ حجۃ الوداع میں بھی حقوق العباد کے مفصل ہدایات و احکام موجود ہیں۔ اسلام حقوق العباد کی ادائیگی پر اتنا زور دیتا ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کیلئے حقوق العباد کو لازمی شرط قرار دیا گیا۔ دورجدید کی بات کی جائے تواقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 10دسمبر 1948کو انسانی حقوق کا منشور منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہر انسان کی حرمت، مساوات اور ازادی کو تسلیم کرنا انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔ یہ پہلا تحریری عالمی منشور تھا جس کو پوری دنیا میں لاگو کیا گیا۔ منشور میں زندگی، ازادی، مساوات، یکساں قانوں، حرمت، تعلیم، ازادی رائے شامل ہیں۔کسی کو ازیت دینا، ظلم کرنا، غیر انسانی سلوک کرنا، قیدبیجاکرنا اور جلاوطن کرنے کو سختی سے منع کیا گیا۔ ریاست کو انسانی حقوق کی تحفظ کا زمہ داری دیا گیا۔

پاکستان نیشنل اسمبلی 1973کو اسلامی قوانیں اور اقوام متحدہ چارٹر کو سامنے رکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق مرتب کرکے پوری پاکستان میں  لاگو کیا گیا۔ آئین پاکستان کے ارٹیکل 8 سے ارٹیکل 28 انسانی حقوق پر بحث کرتی ہے۔ ارٹیکل 8 کہتا ہے کہ ایسا کوئ قانوں نہیں بنایا جائے گا جو انسانی حقوق کے منافی ہو۔ہر شہری کی جان مال کی حفاظت ریاست کی زمہ داری ہے۔ارٹیکل 9 اس بات کا ضمانت دیتا ہے کہ کہ سوائے جہاں  قانون اس کا متقاضی ہو کسی بھی شخض کو اس کے حق زندگی یا ازادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ارٹیکل 10 میں درج ہے کہ ملزم کو ضروری تحفظ دیاجائے گا۔ ارٹیکل 11غلامی، بے گار کی تمام صورتیں ،انسانی خرید فروخت ممنوع ہے۔ 14سال سے کم عمر سے ملازمت یا مزدوری کروانا منع ہے۔ ارٹیکل 14 گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی۔ ارٹیکل 15 ہر شہری کو ملک میں نقل حرکت اور ملک کے کسی بھی حصے میں اباد ہونے کا حق حاصل ہے۔ارٹیکل 18 جائز تجارت، کاروبار کی ازادی ہوگی۔ارٹیکل 20 مذہب کی پیروی کی ازادی حاصل ہے۔ارٹیکل 24 کسی کو جائیداد سے محروم کرنے کی اجازت نہیں۔ارٹیکل 25 سب قانوں کی نظر میں برابر ہیں۔ سب کو یکسان تعلیم فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے۔ ارٹیکل 27 ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ۔ ارٹیکل 28 ہر شہری کو اپنے رسم رواج،  زبان اور ثقافت کو برقرار رکھنے کی اجازت ہے۔

ان حقوق کو روح تصور کیجاتی ہے ان کا تعلق ہم سب سے ہیں نہ کہ صرف ان سے جس پر ظلم و زیادتی ہورہی ہو۔ قوانین اور انسانی بنیادی حقوق کے پاسداری کے بنا کوئ قانوں قابل تعمیل تصور نہیں کی جاسکتی ہےیہی حقوق زندگی میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے بحثیت  انسان اور بحیثیت مہذب شہری ہمیں چاہیے کہ اپنے بنیادی حقوق کو پہچانے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ریاست میں تین ادارے ہوتے ہیں جو ان حقوق کی ادائیگی میں دخل اندازی سے روکتا ہے وہ ہیں قانوں ساز اسمبلیاں،  عدلیہ اور انتظامیہ۔ بوقت ضرورت ان اداروں سے مدد طلب کرے  ۔آئین نافز الوقت کی پاسداری  ہی مستحکم  اور پر امن ملک /معاشرہ کی ضامن ہے۔

وماعلینا الاالبلاغ۔


شیئر کریں: