Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صرف اعلانات نہیں، عمل درآمد کرائیں – محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


خبر آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اشیائے خوردونوش پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔یہ فیصلہ وزیراعظم کی زیر صدارت مہنگائی اور معاشی صورتحال پرغور کے لئے بلائے گئے اجلاس میں کیاگیا۔ وزیراعظم نے وفاقی وزرا کو پرائس کنٹرول کمیٹیوں پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وزراء اپنے حلقوں میں مصنوعی مہنگائی پر نظر رکھیں اورگرانفروشوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔وزیراعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کا حکم دیا۔انہوں نے کم آمدنی والے لوگوں کو پٹرول پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا جس کے تحت موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کیاجائے گا۔ جبکہ یوٹیلٹی سٹورز پر بھی نادار لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی خریداری پر سبسڈی دی جائے گی۔

جس دن وزیراعظم نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی اسی روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان نہیں،ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں حالیہ اضافہ صرف پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ ہے، دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور مہنگائی پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں، خوردنی تیل کی قیمتوں میں چند روز کے اندر 45 سے 50 روپے فی لیٹر کمی کریں گے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی چار بنیادی وجوہات ہیں، پچھلے سال پوری دنیا کو غیر معمولی آفت کا سامنا کرنا پڑا، اقوام عالم کے درمیان تجارت بند ہوگئی۔کورونا کی شدت میں کمی کے بعد جب دنیا معمول پر آئی تو اشیائے خوردونوش کی طلب بڑھنے اوررسد کم ہونے سے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

دنیا میں کروڈ آئل کی قیمت میں 81.55 فیصدجبکہ پاکستان میں 55.17 فیصد اضافہ ہوا، بین الاقوامی مارکیٹ میں گیس کی قیمت میں 135 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کی ڈومیسٹک گیس کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ چینی کی قیمت میں عالمی منڈی میں 53 فیصد جبکہ پاکستان میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے کم آمدنی والے لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کا اعلان کرتی ہے مگر ان فیصلوں پر عمل درآمد کی نگرانی کے فقدان کی وجہ سے اس کے ثمرات لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ سرکاری سٹورز پر جن اشیاء کی نرخوں میں کمی کا اعلان کیاجاتا ہے وہ اشیاء وئر ہاؤسز سے اوپن مارکیٹ پہنچ جاتی ہیں اور سرکاری سٹورز پر چینی، کوکنگ آئل، آٹا اور دیگر رعایتی چیزیں کبھی دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔

سرکاری ادارے حکومت کو قیمتوں میں استحکام کی جو رپورٹ دیتے ہیں وہ بھی زمینی حقائق سے مختلف ہوتی ہیں۔ مارکیٹ میں مرغی کا گوشت ڈھائی روپے فی کلو سے تجاوز کرگیا ہے۔ آلو سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ قیمتوں کی بلند ترین سطح کو قیمتوں میں استحکام قرار دینا مہنگائی کے مارے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حکمران عام طور پر اپنے ملک میں قیمتوں کا موازنہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ناروے، ہالینڈ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کرتے ہیں۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک اور پاکستان میں لوگوں کی فی کس آمدنی کتنی ہے اور ان کی قوت خرید میں کتنا فرق ہے۔

وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کو مہنگائی کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل کا بخوبی احساس ہے اور وہ اس کا اظہار بھی اکثر کرتے رہتے ہیں لیکن ان مسائل کا جو حل وہ تجویز کرتے ہیں وہ سطحی اور مصنوعی ہوتے ہیں ان تجاویز کو عمل کا جامہ پہنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وزیراعظم مہینے میں ایک بار اپنے فیصلوں اور احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ بھی طلب کریں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ انہوں نے عوامی مفاد میں جو فیصلے کئے ہیں ان پر کس حد تک عمل درآمد ہوا ہے اور عوام کو اس سے کتنا فائدہ پہنچا ہے۔ محض اعلانات سے عوام کو ریلیف نہیں بلکہ مزید تکلیف پہنچتی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54016