Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پہ خیر راغلے امریکی سفیر، لیکن ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

شیئر کریں:

 پاکستان میں امریکی سفیر کی نامزدگی کے بعد صدر جو بائیڈن کے فیصلے کی توثیق امریکی سینیٹ کرے گا۔ افغان امور و سفارت کاری کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈونلڈ بلوم کی نامزدگی ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب کہ امریکا بادیئ النظر افغانستان سے جاچکا اورسفارت خانہ بند ہے۔ خطے میں اہم ترین تبدیلیوں اور امریکا سمیت نیٹو ممالک کو تنوع صور ت حال کے باوجود بھی صدر بائیڈن کا وزیراعظم عمران خان سے رابطہ نہ کرنا،  مایوس کن رہا ۔ اب طویل عرصے کے بعد امریکی سفیر کی اسلام آباد میں موجودگی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اپنا موقف زیادہ بہتر انداز میں پیش کرسکے گا اور نامزد امریکی سفیر جنہیں تیونس، افغانستان، اسرائیل اور بغداد میں سفارتی و سیاسی امور میں وسیع تجربہ حاصل ہے، انہیں پاکستان کے تحفظات کو سمجھنے میں بظاہر دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔


امریکا  ایک انجانے خوف کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے استاد کی ہے جس کے پنجہ ئ استبداد سے کم ازکم کچھ وقت کے لئے بعض بچے چھوٹنا چاہتے ہیں تو منظم ہو کرشرارت کرتے ہیں، ایک  بچہ آتے ہی کہتا اوہو! قبلہ خیریت ہے، آج کچھ طبیعت مضمحل سی نظر آتی ہے۔ تو موصوف فرماتے کہ ہاں بھائی، رات کچھ دیر سے سویا اچھی طرح نیند نہیں آئی۔ رفت گذشت،دوسرا ٓتا اور سلام کے بعد چہرہ پر متّردوانہ نگاہ ڈال کر پوچھتا کہ خیریت ہے! آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں، چہرے پر کچھ تمازت کے آثار بھی ہیں، موصوف فرماتے کہ ہاں بھئی کچھ اعضا  ئ شکنی سی محسوس ہو رہی ہے، تیسرا ابھی آکر بیٹھنے بھی نہ پاتا کہ ایک گہری تشویش سے پوچھتا کہ حضرت، مزاج گرامی میں کچھ خرابی سی نظر آرہی ہے، اب استاد صاحب کا دل بھی ڈوبنا شروع ہوجاتا، فرماتے کہ ہاں حرارت سی محسوس ہو رہی ہے۔ چوتھا  بچہ ابھی آنے بھی نہ پاتا کہ استاد صاحب حجرے میں دراز اور نبض پر ہاتھ رکھو تو سچ مچ تپ چڑھتی نظر آتی۔


اب استاد صاحب کے بخار آجانے کا واقعہ فسانہ ہو یا حقیقت، لیکن اس میں کچھ کلام نہیں کہ پراپیگنڈااگر منظم طریقہ سے کیا جائے تو فی الواقع قلبِ ماہیت پیدا کردیتا ہے، اشیا ء کی نوعیت اور دیکھنے والوں کی نگاہوں کے زاوئے بدل دیتا ہے۔ جو چاہتا ہے منوالیتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے تسلیم کرا لیتا ہے۔ پاکستان ابھی معرض ِ وجود میں آیا ہی تھا کہ بھارت کے اربابِ عقد کو اس سے خطرہ محسوس ہوا، اسلام کے نام پر بنی والی ریاست کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا کرنے کا سلسلہ جاری ساری ہے، امریکا، برطانیہ اور یورپ بلاجواز خوف میں مبتلا ہوکر بخار میں مبتلا ہیں، ارباب ِ سیاست کے پیش نظر کچھ اپنی مصلحتیں، کچھ اسلام فوبیا کے شکار اپنی سیادت کا تحفظ چاہتے تھے چنانچہ دونوں گروہ اس مشترکہ مقصد کو لے کر اٹھے اور زبان و قلم کے زور سے پاکستان اور افغانستان کی ایک ایسی بھیانک تصویر کھینچی کہ غیر تو غیر خود اپنے بھی جب اس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو کانپ کر رہ جاتے۔ یورپ، برطانیہ،امریکا اور بھارت پرمخصوص پراپیگنڈاکا تسلط بڑھتا چلا گیا اور مسلم مخالف قوتوں نے دونوں مسلم اکثریتی ممالک کی تصویر کے جو ایڈیشن شائع کئے۔ دل و دماغ کے چوکھٹوں میں فریم کراکر رکھے گئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیائے تہذیب و تمدن میں جب بھی اسلام کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کا نام آتا ہے تو قتل و غارت گری، دہشت گردی، انتہا پسندی، شدت پسندی، بربادی اور تباہی، ہلاکت و خوں ریزی، جورو تظلّم، ستم و استبداد کے خونی مناظر ایک ایک کرکے نگاہوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلائے جاتے ہیں کہ جیسے ان سب خونی مناظر کے ہدایت کار، فلمساز، اداکار اور تمام پروڈوکشن ان دو ممالک کی ہی ہے۔


اسلا م فوبیا  کے عفریت نے جیسے افغانستان اور پاکستان کو کسی قہر خداوندی سے دوچار کردیا ہو کہ اس سیلاب بلا، اس طوفان میں تہذیب و تمدن، علم عمرانیت، عدل و انصاف، عفت و عصمت، مذہب و مسلک ایک ایک کرکے جڑ سے اُکھڑتے چلے جاتے ہوں، مظلوموں کی فریاد، یتیموں کی آہ و بکا، بیاوؤں کا نالہ و فغاں آسمان تک جاتا اور ٹکرا کر واپس آجاتا ہے۔ منظم پراپیگنڈوں نے دونوں مسلم اکثیریتی ممالک کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا ہے کہ جب تک یہ ہیں،ان کے دیس میں قیامت صغریٰ گذرے گی، آبادیاں ویران ہوجائیں گی، بستیاں اُجڑ جائیں گی، لائبریاں، کالج یونیورسٹیاں جل کر راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے۔تہذ ب و تمدّن کے آئینہ ْسر ِ شاہی کھنڈرات میں تبدیل ہوجائیں گی، انہیں خوابوں میں ٹوٹی ہوئی صلیبوں کے انبار نظر آتے ہیں، کسی جگہ زنّار کا ڈھیر دکھائی دیتا ہے، مندر ویران، گرجے مسمارر، نہ برہمن کو امن نہ کلیسا کے راہب کو سکون، نہ عورتیں محفوظ،نہ بچے مصؤن، قتل کردیئے جائیں گے جو بچ جائیں تو ناک میں نکیل ڈلائے حبشی سرداروں کے کوڑے کھاتے نخاس کی طرف گھسٹتے لئے جائیں گے کہ وہاں انسانیت عظمیٰ دو دو ٹکوں میں فروخت کی جائے۔ غرض یہ ہے کہ یہ ہے وہ تصویر جو امریکہ، برطانیہ، یورپ اوربھارت اپنی عوام کو دکھارہے ہیں کہ جسے دیکھ کر آنکھ کی پتلیوں میں سکتہ پیدا ہوجاتا ہے اور دیکھنے والوں کا خون کھول اٹھے۔ حقارت و تنفر انتقام و مواخذہ کے بخارات قلب سے اٹھ کر دماغ پر چھا جائیں اور اس عالم سوز تہذیب اور ننگ انسانیت تمدن کو امن و سلامتی کی دنیا سے مٹا دینے کی مختلف تادبیر و خیالات جولانگاہ بن جاتے ہیں۔


پاک۔افغان  تہذیب و تمدن کو تلوار اور آگ کی نسبت سے انسانیت سوز سمجھنے ہونے والوں کو جاننا ہوگا کہ اصلیت کیا ہے۔  دین اسلام اور دونوں ممالک کی سماجی و معاشرتی اصل اساس کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، کسی فرد واحد کی ذاتی اختراع و مفادت  کو پاکستان اور افغانستان کی تاریخ و تمدن نہ سمجھا جائے۔ امریکا اپنے سفیر کو پاکستان میں اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے بھیجے کہ آخر امریکا کو پاکستان نے کس میزائل سے نقصان پہنچایا، اس کے کن مفادات کو سولی پر چڑھایا، کس مفاد پرکیل ٹھونکی۔ امریکی سفیرکو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اسے اپنا کھلونا سمجھنے کے بجائے مفاداتی برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھے، کسی ضدی بچے کی طرح پاک۔ افغان کو جب دل چاہے کھیلنے اور توڑنے کی روش کو ختم کرے۔ 


شیئر کریں: