Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہماری نجات کا زریعہ رحمت للعالمین کی سیرت طیبہ ہے – محمد آمین

شیئر کریں:

آپ ﷺ کے حوالے سے قرآن مجید نے فرمایا ہے،،اور ہم نے اپ کو سارے جہانون کے لیئے رحمت بنا کر بیھجا ہے(سورہ انبیاء 107).
تاریخ مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب بھی برگذیدہ رسول دنیا میں بیھجے تھے سب کی پاکی اور فضلیت کا اعلان ا ن کے اوپر نازل شدہ اسمانی کتابوں اور صحیفوں میں کیا ہے لیکن جس ٹائٹل سے اللہ نے میرے محمد (ص) کا تذکرہ ہے وہ سب سے نمایان ہے یعنی آپ تمام جہانوں کے لیئے رحمت ہے۔آپ سراپا رحمت کا سر چشمہ ہے اور کیوں نہیں ہو سکتا کہ آپ اخری رسول ہے اور آپ کے بعد تا قیامت کوئی وحی پروردگار کی طرف سے نہیں ائے گا۔اللہ نے دین اسلام کو مکمل دین قرار دیا ہے اور آپ ﷺ کی امت کو بہترین امت قرار دی گئی ہے۔بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ یوم محشر صرف ہمارے نبی کے پاس سفارش کا حق موجودہے۔


آپ صلی اللہ علیہ والسلام بارہ ربیع الاوال 570 ؁ء کو مکہ مکرمہ میں بنی ہاشم کے معزز خاندان میں تشریف لایا۔آپ ﷺ پاک والدین جناب عبداللہ اور جناب آمنہ کے چشم و چراغ تھے۔آپ کے والد محترم جناب اپ کی تولد سے چھ مہینے قبل اس دنیا سے رخصت فرمایا تھا،لیکن شفق دادا جناب عبدالمطالب نے اپ کی پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑا اور اس طرح دادا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والسلام کی تربیت و پرورش کا ذمہ اپ کے چچا جان جناب حضرت آبو طالب نے سنبھال لیا اور بے پناہ شفقت کے ساتھ جناب ابو طالب اپ (ص) کے لیئے ڈھال بن گیا اور اپنی حیات تک کسی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ والسلام کی طرف میلی انکھوں سے دیکھنا کا موقع ہی نہیں دیا۔اور دین اسلام کے خاطر بنی ہاشم کے سارے افراد کو لیکر شیبہ ابی طالب میں تین سال انتہائی تکالیف کے دن گذارے کیونکہ کفار مکہ نے اپ کے خاندان کے ساتھ سماجی بائیکات کر چکے تھے۔پچیس سا ل کی عمر میں آپ (ص) کی شادی مکہ کے ایک دولتمند اور باعزت خاتوں جناب خدیجہ کبریٰ سے ہوئی،جس نے اپنی ساری دولت اسلام کے راہ میں لٹادی۔


جن دنوں آپ صلی اللہ علیہ والسلام اس دنیا میں تشریف لائے ساری دنیا جہالت اور ناچاقی میں ڈوبا ہوا تھا اور اللہ کے توحید کے نام لینے والے گنے چنے کے تھے۔یہودی اپنے مذہب میں رد بدل کیئے تھے اور حضرت عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اور عیسائی (Trinity) تینوں کے فلسفے یعنی اللہ،مریم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ پر عمل پیرا تھے۔ایسے میں جزیرہ عرب کا ماحول سب سے خراب تھا۔خانہ خدا میں 360چھوٹے بڑے بت رکھے گئے تھے جن میں لات،منات اور عزا سب سے بڑے بت تھے اس کے علاوہ ہر قبیلے کے اپنے اپنے بت ہوتے تھے،اور ان میں سے بعض قبیلے فرشتوں کو اللہ کے بیٹے تصور کرتے تھے۔ہر جگہ شرک اورکفر کے اواز گنج رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے مخلوق نے خالق کایئنات کو بھول چکے ہیں۔اور یہ وہی لمحات تھے کہ خدا کی رحمت جوش میں ائی اور اپ کو رحمت اللعالمین اور مسیحا بنا کر اس جہاں میں بیھجا تاکہ آپ بھٹکتے لوگوں کو اللہ کے راستے کی نشاندہی کریں اور گمرائیوں سے نکال کر توحید کے دائرے میں داخل کریں۔تاکہ ان کو پتا چلیں کہ تخلیق کائینات کا اصل راز کیا ہے؟


مذہبی زوال کے علاوہ عرب کے لوگ سماجی،ثقافتی اور سیاسی طور پر بھی تزازل کا شکار تھے۔معاشی برائیاں اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے،عزت اور غربت کے مارے بچیوں کو ذندہ درگور کرتے تھے۔مرد اپنی مرضی سے جیتنے چاہتے شادیاں کرتے۔فحاشی کے اڈے ہر جگہ گرم تھے اور بعض خواتیں اپنے گھروں کے سامنے جھنڈے اویزان کرتے تاکہ مردوں کو پتہ چل سکیں۔شراب،قتل و غارت اور جواء عام تھے۔خواتیں کو معاشرے کا سب سے کمترطبقہ سمجھتے تھے اور میراث میں ان کا کوئی حق نہیں تھا بیوہ عورت کے پاس یہ حق نہیں تھا کہ شوہر کے وفات کے بعد اپنی مرضی سے شادی کریں۔سیاسی طور پر سارا جزیرہ چھوٹی گروپوں میں منقسم تھا،کوئی منظم حکومت نیہں تھا اور طاقتورہمیشہ قانوں بناتے تھے اور اپنی مرضی سے قانوں کا استعما ل کرتے تھے اور قانوں ہمیشہ کمزوروں پر مسلط ہوتا تھا۔المختصر معاشرے میں ہر قسم کی نا انصافی،سیاسی عدم استحکام،توہم پرستی،فحاشی اور ظلم و ستم کا راج تھااس دورکو مورخین اورمفسرین ایام جہالیت کا نام دیتے ہیں۔


آپ ﷺنے تاریکی میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو تیس سال کی مختصر عرصے میں دنیا کا ایک اعظیم قوم بنادیا جس نے دنیا کو علم و حکمت سے روشناس کیا۔اپ نے ریاست مدینہ میں ایک ایسا دستور قائم کیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسان دین و دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔آپ نے خواتین کو پہلی دفعہ حقوق عطا کیا۔جناب خدیجہ سلام اللہ علیہ ایک کامیاب کاروباری خاتوں تھی سے شادی کرکے رحمت اللعالمین نے یہ ثابت کیا کہ خواتین بھی تجارت کر سکتے ہیں،وراثت میں ان کو حق دیا۔آپ نے یہ ارشاد فرما کر،، کہ علم حاصل کرو چاہیے اس کے لیئے چین جانا کیوں نہ ہو،،مسلمانوں کو تلقین کیا کہ میعاری تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔مذید آپ نے عدل و انصاف کے بارے میں یہ کہہ کراسے آمر کیاکہ اگر میرے جگر کا ٹکڑا فاطمہ ؑ بھی چوری کریں تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دی جائے گی۔ریاست مدینہ میں تمام شہریوں کو بلا تفرق کے مساوی حقوق حاصل تھے اور اس کی بنیاد حقوق وفرائض پر مبنی تھے۔


جب ہم عید میلاد نبیﷺ مناتے ہیں تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمیں نبی پاک کی اسوہ حسنہ کو اپنی ذندگی کا حصہ بنائیں اور آپ کی دی ہوئی اصولوں پر عمل کریں۔یہ مہینہ نہایت تقدس کا ہے اس میں مسلمان عبادات کرتے ہیں،مجالس منعقد ہو تے ہیں جن میں انحضرت (ص) ذندگی کے اصولوں اور سیرت پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے اور خاص کر مسلمان نوجوانوں کے لیئے یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی ذندگیوں کو کس طرح سیرت نبوی کے مطابق بسر کر سکیں۔یہ دن انتہائی خوشی اور مسرت کا ہوتا ہے جہاں میلاد پروگرام ہوتے ہیں غریبوں کو کھانا اور کپڑے وغیرہ مہیا کیا جاتا ہے اور ہر طرف خوشی کا سمان ہو تاہے۔
حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی جانب سے رحمت اللعالمین اٹھارٹی کی قیام کا اعلان ایک خوش ائیند قدم ہے جس میں دنیا بھر سے اسکالر اور دانشور شامل ہونگے اور اسلام کے اصل تعلیمات اور چہرے دنیا کو پیش کریں گے اور رسالت معاب ﷺ کے سیرت کو صیح معنوں میں بیاں کریں گے تاکہ ہمارے نوجوان نسل مغرب کے اخلاقیات سے فقدان اقدار کا شکار نہ بنے۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53542