Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوحہ معاہدے سے’ آپریشن ایلائیز ویلکم’ کے اختتام تک !- قادر خان یوسف زئی

شیئر کریں:

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور ملک کے اعلیٰ فوجی افسروں نے اراکینِ کانگریس کو بتایا کہ افغانستان کی جنگ لاجسٹکس کے اعتبار سے کامیابی اور دفاعی اعتبار سے ناکامی تھی۔افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے والے ممالک کے خلاف، پس پردہ مقاصد کو سمجھنا مشکل نہیں کہ اس نئی مہم جوئی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے رکن سینیٹرجم ریش اور دیگر ریپلیکنز نے سینیٹ میں افغانستان انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب ایکٹ متعارف کرایا تاکہ جوبائیڈن انتظامیہ کے ’افغانستان سے عجلت اور تباہ کن انخلا‘ سے متعلق فیصلہ سازی کی جاسکی۔ در حقیقت 20 برس بعد امریکہ کا افغانستان سے مکمل انخلا سابق امریکی صدور بارک اوباما، ٹرمپ کے اُس منصوبے کا حصہ تھا جو انہوں نے افغان امن مذاکرات کے مختلف ادوار میں کیا۔ 2013 میں افغان طالبان سے امریکی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جو2019 میں باضابطہ شکل اختیار کرچکا تھا۔ فوجی انخلا میں صدر بائیڈن کا حصہ اتنا  ہے کہ انہوں نے امریکہ اور افغان طالبان کے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا،جس کے مطابق امریکہ کو 14 مہینے میں اپنا انخلا مکمل کرنا تھا۔ انخلا کے لئے29 فروری سے یکم مئی 2021 کی تاریخ طے پاچکی تھی لیکن نئے امریکی صدر نے 11 ستمبر کی حتمی تاریخ دے دی اور آپریشن کو خفیہ رکھنے کے لئے امریکی صدر نے31 اگست کی حتمی ڈیڈ لائن کا اعلان کردیا، امریکی ‘آپریشن ایلائیز ویلکم’  کی مدت بڑھانے کے لئے 25اگست کو امریکی سی آئی اے چیف نے افغان طالبان نے مزید توسیع چاہی لیکن افغان طالبان نے تاریخ بڑھانے سے انکار کرتے ہوئے 31اگست کو آخری ریڈ لائن قرار دے دیا۔درحقیقت کچھ اچانک نہیں تھابلکہ29 فروری2020 میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کے مطابق عمل ہورہا تھا، جوبائیڈن کا فیصلہ زمینی حقائق کے مطابق درست تھا کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور افغان جنگ سے باہر نکل آئے۔


 امریکی انتظامیہ نے دوحہ معاہدے میں افغان طالبان سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے طویل مذاکرات کئے۔ 8 ستمبر 2019 کوتعطل کے بعد ایک بار پھر 07 دسمبر2019 کو مذاکرات بحال ہوئے۔ 21فروری کو امریکہ کے سات دن کے جزوی  جنگ بندی کے مطالبے  پر عمل کرکے افغان طالبان نے ثابت کردیا کہ وہ امن قائم کرسکتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی گروپ بندی نہیں۔  29 فروری 2020 کو دوحہ معاہدے کی صدر ٹرمپ کی توثیق کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندوں سمیت 50 ممالک کی موجودگی میں امریکی نمائندے نے دوحہ میں مفاہمتی معاہدے پر دستخط کئے لیکن یکم مئی تک امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ انخلا کرنے میں ناکام رہا اور معاہدے کے مطابق29مئی تک افغان طالبان کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ اور سفری پابندیاں ختم کرانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔ معاہدے کے مطابق افغان طالبان کے پانچ ہزار اسیروں کو ایک ہزار امریکی فوجیوں کے تبادلے میں رہا کرانا تھا جن کی فہرستوں کا تبادلہ دونوں فریقین پہلے کرچکے تھے۔ ٖغنی انتظامیہ نے دوحہ  سمجھوتے کے برخلاف معاہدے کو ختم کرانے کے لئے غلط فہمیاں اور اشتعال دلانے کی کوشش کی، پہلے مرحلے میں یکم مارچ کودوحہ معاہدے کی نکات کوتسلیم کرنے سے انکار کیا، لیکن امریکی حکم پر ماننے پر راضی ہوگئے، اسیروں کی رہائی کے آخری مرحلے میں 400 قیدیوں کی رہائی جرگہ کے فیصلے سے مشروط کردیا، لیکن افغان مصالحتی کونسل نے تمام قیدیوں کی رہائی کی منظور دے کر غنی کا کھیل بگاڑ بنادیا،400 قیدیوں کے بدلے ایک ہزار افغان سیکورٹی کے اہلکاروں کو رہا کئے جانا تھا، لیکن غنی نے60 قیدیوں کے رہائی کے بعد، ایک بار پھر طالبان اسیروں کو رہا کرنے  کا عمل روک دیا،بالا آخر امریکی مداخلت کے بعد قیدیوں کا تبادلہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوا تو غنی انتظامیہ نے امریکی رویئے سے مایوس ہوکر دیگر مغربی ممالک آسٹریلیا اور فرانس کو دخل اندازی کرانے کے لئے سات اہم قیدیوں کی رہائی سے انکار کردیا کہ اُ س پر آسٹریلیا و فرانس کا دباؤ ہے۔ یہ ایک بڑی گہری سازش تھی جو غنی انتظامیہ نے تیار کی تھی تاہم امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر درمیانی راستہ نکالا اور یہ قیدی قطر کی حکومت کی ضمانت پر رہا ہو گئے ۔  قیدیوں کے تبادلے میں قریباََ ایک برس کا عرصہ ضائع کرایا گیا اور بین الافغان ڈیڈ لاک شکار ہوگئے۔ غنی انتظامیہ اور ان کے حامیوں کا خیال تھا کہ افغان طالبان معاہدہ کو منسوخ کرکے غیر ملکی افواج پر حملے شروع کردیں گے، لیکن افغان طالبان نے عسکری محاذ پر غیر ملکی افواج کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور معاہدے کے مطابق عمل کیا جس کا اعتراف امریکی اعلیٰ حکام بھی کرچکے ہیں۔


 صدر ٹرمپ کو اپنی کئی سخت گیر اور ناقابل عمل پالیسیوں کی وجہ سے جو بائیڈن کے ہاتھوں صدارتی انتخابات میں شکست کا سامنا ہوا۔ اب یہ نئے امریکی صدر پر متنج تھا کہ وہ دوحہ معاہدے کو جاری رکھتے ہیں یا ختم کرتے ہیں، صدر جوبائیڈن نے جو کہ افغان جنگ میں سابق صدر بارک اوباما کے نائب  رہ چکے تھے، جنگ کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق گہرا مشاہدہ رکھتے تھے کہ اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے بعد امریکی مشن پورا ہوچکا ہے لہذا ن کا افغانستان میں مزید رہنا ایک نئی نسل اور آنے والے نئے صدر کے لئے  بھیانک ہے، اس لئے زمینی حقائق کے مطابق انہوں نے فوجی انخلا سے متعلق ڈیڈ لائن کا اعلان کردیا گوکہ مقررہ تاریخ یکم مئی کو امریکی افواج کا انخلا ممکن نہیں ہوسکا، پہلینائن الیون کے موقع پر اعلان کا ارادہ کیا گیا تھا، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے درمیان محاذ آرائی کی فضا تھی کہ امریکہ ابھی مکمل انخلا نہ کرے لیکن صدر بائیڈن نے ٹھوس انداز میں ستمبر سے قبل ہی مکمل انخلاکے احکامات جاری کردیئے۔ امریکی افواج نے فوجی بیس کمیپ خالی کرکے غنی انتظامیہ کو حوالے کر نا شروع کردیئے اور بالا آخر بلگرام ائیر بیس بھی خالی کردیا گیا،  امریکہ نے اپنے  ڈھائی ہزار فوجی سمیت مجموعی طور پر7500  اہلکارافغانستان میں موجود رکھے، تاہم امریکی فیصلے کے بعد غنی انتظامیہ میں ہلچل مچ چکی تھی،  خیال رہے کہ سابق صدر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ہمراہ  26جون کے دورہئ امریکہ میں صدر جوبائیڈن و وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور اسپیکر نینسی پلومیسی سے آخری ملاقات میں کوشش کی کہ امریکی انخلا نہ ہو، لیکن بائیڈن حتمی فیصلہ کرچکے تھے، جس کے بعد کابل میں مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے۔ جس کا براہ راست اثر ایسی افغان سیکورٹی فورسز پر ہوا جن کی تربیت پیشہ ورانہ نہیں کی گئی تھی اورکابل انتظامیہ کی کرپشن، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور اپنے تحفظ کی وجہ سے دل برداشتہ ہوچکے تھے۔


 امریکی انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹس میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ افغان سیکورٹی فورسز، افغان طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور افغان طالبان بہت جلد افغانستان پر کرلیں گے، انہوں نے پہلے ایک برس کااندازہ لگایا، پھر کابل پر قبضے کا 90دن اور پھر18اگست کو72گ ھنٹوں میں درالحکومت پر قبضے کی نشا ن دہی کردی تھی لیکن جوبائیڈن کا موقف بڑا واضح تھا کہ امریکہ افغانستان میں تعمیر نو کے لئے نہیں آئے تھے۔افغان طالبان کی فتوحات پر دنیا بھر میں حیرت و تحفظات کا اظہار کئے جانے لگا کہ امریکہ نے جن ایک  لاکھ 80ہزارسے زائد افغان نیشنل فورسز اور پولیس و  خفیہ سیکورٹی کو ملا کرتینلاکھ سات ہزار نفری کی تربیت کی تھی وہ کہاں غائب ہو گئے اور پورے افغانستان میں بنامزاحمت (سوائے چند علاقوں) کے قبضہ کیسے ہوگیا۔ واضح رہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔سرکاری اعداد و شمار  کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں پچھلے 18 سالوں میں ہونے والی تعمیر نو کی کوششوں میں خرچ ہونے والی تمام رقم کا تقریباً 16 فیصد یعنی 143.27 ارب ڈالر ادا کیااور اس میں سے نصف سے زیادہ یعنی 88.32 ارب ڈالر افغان نیشنل آرمی اور پولیس فورس سمیت افغان سکیورٹی فورسز کی تیاری میں خرچ ہوا۔3.1ٹریلین ڈالرز سے زائد امریکہ نے کابل انتظامیہ پر خرچ کئے۔اصل سوال یہ ہے کہ امریکی رقم کا بڑا حصہ کن کی جیبوں میں گیا۔ کرپشن زدعام تھی، امریکہ نے کرپشن روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ افغان مرکزی رہنماؤں کے گھروں سے ڈالروں کے انبار ثابت کررہے ہیں کہ امریکہ کو اصل نقصان کابل انتظامیہ نے دیا۔ جب کہ پاکستان کی قربانیوں کے جواب میں امریکہ نے فنڈز بھی روکے پابندیاں بھی لگائیں، ڈومور کے مطالبات بھی کئے اور کولیشن فنڈز کے علاوہ دیگر امداد رقوم کو مختلف طریق کار اختیار کرکے روکا گیا، پاک فوج کو جدید ساز وسامان و تربیت دینے پر پابندی عائد کی، جب کہ پاکستان مسلسل قیام امن کے لئے امریکہ کا ساتھ دیتا رہا اور جانی و مالی نقصان برداشت کرتا رہا، تما م تر حقیقت سامنے آنے کے باوجود بھی پاکستان پر د باؤ ڈالنا ذو معنی ہے۔


 افغان طالبان کے کابل دروازے تک پہنچنے کے بعد غنی انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ اپنے قابل اعتماد رفقا ء و اتحادیوں سے مشاورت کے بعد اور کچھ رہنماؤں کو اندھیرے میں رکھ کر فرار ہوگئے۔  امریکہ سمیت تمام نیٹو اتحادیوں نے اپنے اہلکاروں و شہریوں کو  نکالنے کا عمل شروع کردیا اور15 اگست سے31اگست تک انخلا کا آپریشن شروع کیا، جس میں مشکلات بھی انہوں نے اپنے لئے خود پیدا کیں جب پرائیوٹ کنٹریکٹرز سمیت افغان شہریوں کو نکالنے کا بھی اعلان  کیا گیا اُس وقت کابل عملی طور پر دوحصوں میں تقسیم تھا اور امریکی حصے میں ان گنت افغانیوں نے ڈیرے ڈال دیئے تھے، دوحہ میں امریکی فوجی حکام نے افغان طالبان سے ضمانت لی کہ وہ انخلا کے اس مرحلے میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں۔ امریکہ نے کمرشل فلائٹ پر پابندی عائد کرکے فوجی پروازں کا سلسلہ شروع کردیا تھا، اگر اُس وقت امریکہ کمرشل فلائٹس پر پابندی عائد نہ کرتا تو ممکن تھا کہ وہ سانحات جنم نہ لیتے جو کابل ائیر پورٹس میں دیکھے گئے۔  امریکہ کو اصولی طور پر اپنے7500 اہلکاروں کو کابل سے لے جانا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ نے اپنے تمام جنگی ساز و سامان کو تباہ کر دیئے۔ 31اگست کو جب امریکہ کا آخری فوجی افغانستان کی سرزمین سے نکل رہا تھا تو اس وقت تک نیٹو کے تمام ممالک اپنے اہلکاروں کو واپس بلا چکے تھے، بعد ازاں علم ہوا کہ افغان شہریوں کو نکالنے کے آپریشن میں 100امریکی پھر بھی افغانستان میں رہ گئے۔ نیٹو ممالک نے انخلا کے لئے پاکستان کا سہارا لیا اور تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا۔ خیال رہے کہ اُس وقت امریکی انتظامیہ نے تمام صورت حال و شکست کا ذمے دار اشرف غنی اور اس کی انتظامیہ کو قرار دیا تھا۔


 پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نان نیٹو اتحادی ہونے کے ساتھ دیا اور قیام امن کے لئے ہر ممکن وہ کردار ادا کیا جو اس کے بس میں تھا۔ افغان طالبان کا اثر رسوخ عالمی سطح پر بڑھ چکا تھا اور سفارتی محاذ پر روس، چین، ایران اور قطر جیسے ممالک کی ہمدردیاں وہ حاصل کرچکے تھے۔ پاکستان، افغانستان میں بھارتی کردار کی وجہ سے تحفظات رکھتا تھا اور اس کے خدشات غلط نہیں تھے کیونکہ بھارت افغان سرزمین کابل انتظامیہ و خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر استعمال کررہا تھا۔ بھارت، پاکستان کی سلامتی و بقا کے خلاف ہر گھناؤنی سازش میں سرفہرست رہا ہے اس لئے پاکستان کا اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے افغانستان کے امن عمل میں کردار فطری تھا۔ بھارت نے وادی پنچ شیر کو مرکز بنا کر افغانستان میں خانہ جنگی و گوریلا وار کا گڑھ بنانے کی کوشش کی، لیکن افغان طالبان جانتے تھے کہ ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، کیونکہ انہیں اس کا چالیس برس کا تجربہ تھا۔ پھر افغانستان میں ماضی کے مقابلے میں بڑی مزاحمت کے بغیر انہیں فتوحات ملی تھی، خاص کر کابل ایک پکے ہوئے پھل کی طرح جب ان کی جھولی میں گرا تو ان کے حوصلے کافی بلند ہوچکے تھے اور ان کے پاس مفتوحہ علاقوں سے جدید جنگی ساز وسامان اور نقل وحرکت کے لئے ہیوی مشینری بھی مل چکی تھی، رستم دوستم، عطا نورجیسے جنگجو پہلے ہی فرار ہوچکے تھے۔ء افغان طالبا ن نے احمد مسعود اور امر صالح کی ضد کی باوجود پہلے مذاکرات کئے جو ناکام رہے، شمالی مزاحمتی اتحاد غلط فہمی کا شکار تھا کہ بھارت اس کی مدد کرے گا، لیکن بادی ئ النظر ایسا کچھ نہیں ہوا اور جب افغان طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تو وادی پنچ شیر کا آخری مورچہ بھی ان کے قبضے میں آچکا تھا اور بغیر شراکت افغان طالبان نے اپنے بل بوتے پر سرزمین افغانستان پر اپنی معزول حکومت بحال کرنے کا اعلان کردیا۔
 ریپبلکن پارٹی  کے گروپ نے مخصوص مقاصد کے تحت امریکہ کو دوبارہ جنگ میں جھونکنے کی ہے، پاکستان کے کردار پر سابق صدر ٹرمپ بھی جنوبی ایشائی پالیسی میں سخت زبان استعمال کرچکے ہیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ غلطی پر تھے۔ ماضی میں پاکستان کا جو بھی کردار تھا وہ امریکی ڈومور پالیسوں کی وجہ سے ہی رہا، اب حکومت نے امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بجائے امن کا ساتھ دینا کا فیصلہ کیا تو عملی طور پر ثابت بھی کیا، درحقیقت امریکی سینیٹرز بل کی آڑ میں ایرا ن، چین اور روس کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جنہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کے تعاون سے اہم کردار ادا کیا، خیال کیا جارہا ہے بل کو اکثریت حمایت حاصل  نہیں ہوگی،  کئی ارکان نے و زیرِ دفاع لائیڈ آسٹن، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارک ملی، اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ فرینک میکنزی سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں افغان جنگ کے خاتمے پر فوج کی اعلیٰ قیادت کو سخت سوالات میں تنقید و تعریف کا سامنا بھی کرنا پڑا۔


شیئر کریں: