Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کن شرائط پر ممکن ہیں؟ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

 ہمیں کبھی بھی خوف کی وجہ سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے اور نہ ہی مذاکرات سے خوفزدہ ہونا چاہیے، جے ایف کینڈی۔ ریاست کی جانب سے کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اگرچہ ریاست کا ریاست مخالف گروہوں سے بات چیت کرنے کا یہ پہلا موقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی بہت سارے گروہوں سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ آج سے لگ بھگ آٹھ سال پہلے بھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے گئے تھے۔ اے این پی اور جے یو آئی کی جانب سے دو اے پی سیز کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں سے ٹی ٹی پی نے اول الذکر کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جبکہ ثانی الذکر کو تسلیم کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مفاہمتی منصوبہ بندی کی قلت اور اسٹیبلیشمنٹ کی عدم آمادگی کے باعث مذاکرات کا سلسلہ سردی مہری کا شکارہو گیا۔ مسٹر خان کی جنگ کے بجائے مذاکرات کے زریعے حل کی منطق کافی مقبولیت کی حامل ہے۔

سمارٹ خان نے امریکہ کو بھی افغانستان کے حوالے سے یہی مشورہ دیا تھا۔ ریاست مخالف گروہوں سے مذکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کی کوشش قابل ستائش ہے۔ تصادم سے بچنے اور مسائل کے پرامن حل کے لیے مذکرات بہترین راستہ ہیں۔مسٹر خان کوطالبان کا حامی بھی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے افغانستان، شمالی علاقہ جات اور دیگر معاملات میں طاقت کے بجائے مذاکرات کی حمایت کی۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے ماضی کے نمایاں معاہدوں میں شکئی امن معاہدہ 2004،ساروگہا امن معاہدہ2005، میراں شاہ امن معاہدہ2006اور سوات امن معاہدہ2009قابل ذکر ہیں۔ سوات امن معاہدہ کے علاوہ تمام معاہدے سول انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے۔

سوات معاہدے میں اے این پی نے مولانا صوفی محمد کے زریعے فوجی قیادت کی سرپرستی میں کیا گیا۔ اگر ماضی کے امن معاہدوں کا جائزہ لیں تو یوں محسوس ہوتا ہے ان معاہدوں میں حکومت کی پوزیشن کافی کمزور رہی ہے مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ماضی کے معاہدوں سے پاکستان کے بجائے طالبان کو فائدہ ہوا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر حملہ آور ہوئے۔ ریاست شمالی علاقہ جات کو ٹی ٹی پی سے پاکرنے اورانہیں غیر مسلح کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ماضی میں شریعت کا نفاذ اور امریکی جنگ سے علیحدگی ٹی ٹی پی کے دوبنیادی مطالبات تھے۔ ماضی میں ٹی ٹی پی مختلف سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کو بھی ضامن کے طور پر نامزد کرتی رہی ہے۔اب امارت قائم ہو چکی ہے اور طالبان کابل میں مقتدر ہیں۔ اس لحاظ سے طالبان کی شرائط بھی یقینا ماضی کی نسبت مختلف ہوں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا ٹی ٹی پی روایت سے ہٹ کر مذاکرات کی طرف قدم بڑھاتی ہے یا ماضی کی طرح اسے ایک بہانے کے طور پر استعمال کر تی ہے۔

ٹی ٹی پی کے چند ممکنہ مطالبات میں ٹی ٹی پی قیادت اور ممبران کی رہائی، شریعت کا نفاذ، شمالی علاقہ جات کے کچھ حصوں سے فوج کا انخلاء  وغیر ہ شامل ہوسکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی ماضی میں امن معاہدوں کی آڑ میں دوبارہ منظم اور متحدہو کر حملہ آور ہوتی رہی ہے۔ یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہیکہ ٹی ٹی پی کی افغانستان کے مغربی حصوں میں مقیم قیادت کہیں مذاکرات کو پھر سے دوبارہ منظم اور متحدہونے کے لیے استعمال تو نہیں کرنا چاہتی۔ ماضی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے بجائے فوجی حل ہی سود مندثابت ہوا تھا۔ دراصل ٹی ٹی پی میں بھی کئی دھڑے ہیں، مذاکرات کی صورت میں ہمیں یا تو ان سب دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے یا پھر مرکزی دھڑے کو یہ ذمہ داری لینی ہو گی کہ وہ باقی ماندہ چھوٹے دھڑوں اورگروہوں کو معاہدہ پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری لے بصورت دیگر یہ مذاکرات قومی مفادات کے ضامن نہیں ہو سکتے۔ ایک سوال یہ بھی ہے ہزاروں سولین،افواج پاکستان کے نوجوانوں،اعلی افسران اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کی قربانیوں کو کیا ہم پس پشت ڈال دیں گے؟دوسری وجہ یہ بھی ہے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی صورت میں دیگر متحارب اور ریاست مخالف گروہوں کو یہ پیغام ملے گا کے وہ بھی اپنے آپ کو کلعدم کے داغ سے پاک کرسکتے ہیں۔

اس طرح مذاکرات کی آڑ میں یا تو دیگر گروہ ٹی ٹی پی کی چھتری کے نیچے متحد ہو جائیں گے یا وہ اسے ثبوت بنا کر اپنے اوپر لگائی گئی پابندیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی تگ و دو کریں گے۔اگر دیگر گروہ ٹی ٹی پی کی برتری تسلیم کرتے ہوئے یہ مان لیتے ہیں کے ٹی ٹی پی کے پاس حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی طاقت ہے تو دیگر گروہ اس کے ساتھ ملکر مستقبل میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ مذاکرات کے زریعے ٹی ٹی پی ملک میں موجود اپنے حمایتیوں کی بھر پور حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیا ب ہو جائے گی اور دیگر کلعدم تنظیمیں ریلیف لینے عدالت پہنچ جائیں گی۔ ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے کی امید پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قبائلی دشمنی کی روایات ہیں۔ ٹی ٹی پی نے اپنے کنڑول والے عرصے میں بہت سارے قبائلی سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارا تھا۔ اگر وہ غیر مسلح ہوتے ہیں تو انہیں اچھی طرح معلوم ہے قبائلی ان سے انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ سوات امن معاہد ہ کے بعد ٹی ٹی پی کے آپریشنل کمانڈر ابن امین نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا اور انہی تحفظات کے پیش نظروہ غیر مسلح نہیں ہوا تھا۔یوں ٹی ٹی پی شائد غیر مسلح ہونے پر کسی صورت راضی نہ ہو۔ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے پاکستان کو افغانستان میں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ضرور ملے گی کیونکہ مذاکرات کے لیے رابطے بھی افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی قیادت کر رہی ہے۔ سال 2020میں حقانی گروپ کی جانب سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھاجو نتیجہ خیز ثابت ہوئے بغیر ہی ختم ہو گیا۔ یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے لیے اپنے 10ارکان کے ناموں کی فہرست بھی پیش کر دی ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ ختم کرنے کے بدلے قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلاء اور وہاں پر شریعت کا نفاذ وغیرہ جیسے مطالبات شامل ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے سال 2009میں امن معاہدے کے تحت نفاذ شریعت کی اجازت دی گئی تھی مگر ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے اسے ختم کر تے ہوئے فوجی آپریشن کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے ممکنہ مطالبات میں پاکستان کے خلاف محرکہ آرائی کو ختم کرنا، پاکستان کے آئین کے تحت چلنا، شہدا ء اور زخمیوں کے لیے معاوضہ ادار کرنا، غیر مسلح ہونا، اسلحہ پاکستان کے حوالے کرنا اور مذاکرات پر ہونے والے اخراجات کی ادائیگی شامل ہو سکتی ہے۔ اگر دونوں اطراف کے ممکنہ مطالبات کا بغورجائزہ لیا جائے تو مذاکرات کسی منطقی انجام تک پہنچتے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر اقوام متحدہ کی رپورٹ اورپاکستانی وزیر دفاع کے بیانات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہو تا ہے کوئی تیسرا فریق دونوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر منقسم ہے۔

اپوزیشن حکومت کو الزام لگا رہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لائے بغیر کلعدم تنظیم کو این آر او دے رہی ہے۔ اگر حکومت نے ہاتھ ہلکا رکھا تو یہ مذاکرات مستقبل میں دلدل ثابت ہو ں گے۔ اپوزیشن ماضی میں متحارب گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرتی آئی ہے اور مذاکرات کی حامی بھی رہی ہے مگر اب اس مسلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ ریاست اور تحریک طالبان دونوں اپنے لیے بہترین موقعہ کی تلاش میں ہیں جو بہتر کھیلے گا وہ زیادہ فائدے میں رہے گا۔ مگر اسلام آباد کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے ماضی میں مذاکرات نے ٹی ٹی پی کو مضبوط اور متحد کر کے زیادہ تقویت دی اور کا حل فوجی آپریشن ہی نکالا گیا تھا۔


شیئر کریں: