Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ففتھ جنریشن وار اپنے ہی خلاف – تحریر:تقدیرہ خان

شیئر کریں:


عام طو رپر کہا جاتا ہے کہ میڈیا مملکت کا چوتھا ستون ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ دیگر تین ستونوں کی حالت بھی اچھی نہیں اور نہ ہی بنیادیں مضبوط ہیں۔ جس طرح پاکستان کا وجود قدرت کا کرشمہ ہے ویسے ہی یہ مملکت قدرت کے سہارے پر قائم ہے۔ دیگر بہت سے قومی اداروں کی طرح میڈیا مملکت کا نہیں بلکہ مفاداتی عناصر اور تاجرانہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں اور کسی حدتک ملک دشمن عناصر کا آلہ کار ہے۔ پاکستانی اور دیگر دنیا کے میڈیا کا موزانہ کیا جائے تو دنیا کے کسی بھی ملک کا میڈیا اپنے ہی عوام اور ملک کے محافظ اداروں کے خلاف میڈیا وار میں ملوث نہیں اور نہ ہی کوئی حکومت ایسے مادر پدر آزاد اور شتر بے مہار میڈیا کو ایسی حرکات کی اجازت دیتی ہے۔


چندٹی وی اینکروں، صحافیوں اور دانشوروں کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں جو ملک کی بربادی اور پاکستانی عوام کی بد حالی کا نظارہ دیکھنے کے منتظر ہیں۔ یہ خواتین اور کچھ حضرات پریشان ہیں کہ افغانستان کے ساتھ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے ابھی تک پاکستان پرپابندیاں عائد کیوں نہیں کیں اور مودی سمیت پاکستان دشمنوں کا ایجنڈا پاکستان پر لاگو کیوں نہیں ہوا۔
ننگے سراور مردانہ لباس میں ملبوس خاتون اینکر نے جناب رستم شاہ مہمندسے سوال کیا کہ طالبان نے ابھی تک وعدے پورے کیوں نہیں کیے اور ببرک کا رمل کابینہ کی ایک رکن عنائتہ جیسی پینٹ کوٹ اور ٹائی والی خواتین طالبان حکومت کا حصہ کیوں نہیں بن سکیں۔ رستم شاہ مہمند نے جواب دیا کہ چالیس سے زیادہ اسلامی ملکوں میں کوئی عورت کابینہ میں شامل نہیں۔ تم دس اسلامی ملکوں کے نام بتا دو جہاں عورتیں پالیمنٹ اور کابینہ کی ممبر ہیں۔ خاتون اینکر جو تیاری کر کے آئی تھی اس میں عقل و علم کی کوئی بات نہ تھی اور نہ ہی اُسے کسی اسلامی ملک کا پتہ تھا کہ بات آگے چلتی۔ ایسی اینکر خواتین کی مثال بھارتی فلم کے گانے جیسی ہے کہ ”جتنی چابی بھری رام نے اتنا ہی چلے کھلونا“ پتہ نہیں ان کا رام یاراون کون ہے؟۔ ننگے سر، مردانہ لباس، بوائے کٹ اور میک اپ سے عقل میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کمپیوٹر سے ڈاؤن لوڈ کیے پروگراموں او رجھوٹے پراپیگنڈہ چینلوں سے حاصل کردہ مواد سے کوئی محقق بن جاتا ہے۔ البتہ ایسے بیانات اور پراپیگنڈہ سے بھارت، امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو خوشی ہوتی ہے کہ خود پاکستانی صحافی اور دانشوراپنے ہی ملک پر پابندیوں کے منتظر ہیں۔


اسی خاتون کے سامنے چند روز پہلے ایک پرانے،خرانٹ اور مغرب زدہ ریٹائر ڈ سفیر بیٹھے تھے۔ فرما رہے تھے کہ جب تک طالبان افغان عورتوں کو عالمی معیار کی آزادی نہیں دیتے مغرب، امریکہ اور دیگر دنیا انہیں قبول نہیں کر ے گی۔ کیا بات ہے ایسے سفیروں کی؟ پتہ نہیں ایسے سفیر اس ملک کی کیا خدمت کرتے رہے ہونگے جنہیں اسلامی تہذیب و تمدن کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے موصوف پاکستان میں کسی ایسے جزیرے کے سفیر رہے ہوں جہاں تہذیب وثقافت کا کوئی نا م و نشان تک نہ تھا۔ ابن بطوطہ کے سفر نامے میں کچھ ایسے جزیروں کا ذکر آتا ہے جہاں عورتیں اور مرد بے لباس ہوتے تھے یا پھر انتہائی مختصر لباس پہنتے تھے۔شاید یہ اسی دور کے سفیر ہوں یا پھر ابن بطوطہ کے قافلے سے جدا ہوئے کوئی بارہویں صدی کے انسان ہوں۔موصوف یہ بھی تو بتا جاتے کہ عورتوں کی آزادی کا عالمی معیار کیا ہے۔ بے حیائی، مختصرلباس، مردانہ لباس یا پھر”میرا جسم میری مرضی“۔ہمارے ہاں ایسے کمرشل اشتہاروں کی بھرمار ہے اور ٹی وی ڈراموں کی بھی کمی نہیں دینی شعار کا مذاق،ذومعنی مقالمے، رشتوں کے تقدس کی پامالی، غریبوں سے نفرت،نوکروں پر ظلم و تشدد، معاشرتی ماحول کا بھگاڑ اور روایات سے بغاوت۔ان آزادیوں کے باوجود ابھی بھی عورتوں کی آزادی کی آوازیں بلند ہیں اور مزید آزادیوں کی مانگ ہے۔


افغانستان 1747؁ء سے قائم ایک ملک ہے اوراس کے اصل باشندے پختون ہیں جو آٹھ سوسال قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ اُن کی اپنی تاریخ اور روایات ہیں۔ وہ امریکہ، بھارت اور مغربی ممالک سے صدیوں پہلے ایک تہذیب یافتہ قوم تھے۔ اُن کی اپنی روایات اور کلچر ہے جسے اسلام نے اپنے رنگ میں رنگا تو وہ ہماری طرح کبھی بد رنگ نہیں ہوئے۔ ماضی میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ امریکہ، بھارت اورا ہل مغرب کی درندگی اور انسانیت سوز مظالم کا عشر وعشیر بھی نہیں۔ طالبان نے جن لوگوں کو قتل کیا یہ وہی لوگ تھے جو ہزاروں افغانوں کے قاتل اور دشمن کے آلہ کار تھے۔ بد کردار عورتوں کو سرعام سزائیں دیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ مگر افغانستان کے وار لارڈ ز جنہیں مغر ب اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی کی طرح انسانی سروں سے فٹ بال نہیں کھیلا،نہ بچوں سے بد کرداری کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی عورتوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا۔ اس گھناؤنے کاروبار پر موسیٰ خان جلالزئی کی کتاب پڑھی جاسکتی ہے۔ہمارے اینکرشاید نہیں جانتے کہ مغربی حمایت یافتہ جنگجو کمانڈر شہید طالبان کے جسم میں پیٹرول بھر کر آگ لگاتے تھے اور پھر مردے کا ڈانس دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ طالبان نے تو کبھی ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے پاس ایسا ثبوت ہے کہ انہوں نے انسانی جسم کو بُز کشی میں استعمال کیا ہو۔ دہشت لیلیٰ اور قلعہ جنگی میں کیا ہوتا رہا، ہمارے صحافیوں کو پلاٹوں اور پرچیوں سے فراغت ہو تو اس پر بھی دو لفظ بول دیں،ثواب ہو گا۔


امریکیوں نے انسانوں کو پنجروں میں بند کیا اور کتوں کی طرح چلنے پر مجبور کیا۔ گلے میں زنجیریں ڈالیں اور بچوں پرنیپام بم برسائے، کیا یہ سب عالمی معیار کے مطابق ہوتا رہا ہے۔


ایک اور چینل پر بیٹھی دانشورہ اکثر پریشان رہتی ہے کہ ابھی تک پاکستان پر پابندیاں کیوں نہیں لگیں۔ کبھی کبھی اُس کے مہمان بھی اُسی طرح کی ذہنیت کے ہوتے ہیں اور وہ خوشخبری سنا جاتے ہیں کہ جلد یا بدیر اُن کی شیطانی خواہش پوری ہو جائے گی۔یہ سن کر وہ خوش ہو جاتی ہے اور پھر مسکراتی بھی ہے۔ یہی سوال محترمہ نے سابق سفیر اعزاز چوہدری سے کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے چونکہ ایساہو نہیں سکتا۔ مجھے یا آپ کو ایساسوچنا اور اس کا پراپیگنڈہ کرنا زیب نہیں دیتا۔ جو بات ابھی امریکہ اور مغرب کے ذہن میں نہیں یا پھر ایسا ممکن نہیں تو آپ ایسا زہر اُن کے کانوں میں کیوں گھولتی ہیں۔ ایک دانشور اور ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اُستاد جو علم سیاسیات کے ماہر جانے جاتے ہیں،ایک چینل پر فرما رہے تھے کہ چین اور روس نے پاکستان کو تھپکی دیکر آگے کر دیا ہے اور خود تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کتنی گھٹیا او ر سطحی سوچ ہے۔

مقصد صرف روس، چین اور پاکستان کے درمیان افغانستان کے معاملے پر پیدا ہونے والی یکجہتی اور مثبت سوچ میں رخنہ ڈالنا اور بھارت کی نمائندگی کرنا ہے۔ جو پراپیگنڈہ بھارت کر رہا ہے ہمارے دانشور بھی اُسی کے راستے پر چل کر اپنی بری نیت، کم عقلی اور پست ذہنیت کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔
ذرا اپوزیشن جماعتوں کی ذہنیت اور ملک سے محبت کا مظاہرہ بھی دیکھے۔ لیڈراور ان کے حمائت یافتہ صحافی فرماتے ہیں کہ عمران خان طالبان کا ترجمان بن گیا ہے۔ اے عقل کے دشمنو،وہ پاکستان کا ترجمان ہے۔ مریم صفدر اور بلاول زرداری سکرپٹ سے ہٹکربھی کبھی بات کیا کریں۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اوروہاں کی عوام کی روٹی روزی کا قدرتی انحصار پاکستان پر ہے۔آخر یہ ملک کب تک بیرونی امدا د پر چلے گا۔ پاکستان کتنا ہی غریب اور بد حال کیوں نہ ہو جائے یہاں کی مٹی اللہ کی رحمت سے نہ صرف پاکستانیو ں بلکہ افغانوں کے رزق کا بھی وسیلہ ہے۔ بلاول کے نانا نے روٹی کپڑا اور مکان کا کھوکھلا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ترک کر کے عوام دشمنی کا ثبوت دیا۔زرداری اور شریفوں میں ہمت اور وطن سے پیار ہے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کریں نہ کہ اوٹ پٹگ فلسفوں پر گزارہ کریں۔


عمران خان کہہ رہا ہے کہ افغانوں کو اپنی زمین پر جینے اوررہنے کا حق دیا جائے ورنہ وہ لوگ ایک بار پھر ہجرت پر مجبور ہو جائینگے اور پاکستان کے وسائل پر بھاری بوجھ پڑ ے گا۔ وہ آنیوالے کل کی بات کر رہا ہے اور تم ڈنگ ٹپاؤ پالیسوں پر بونگیا مار رہے ہو۔ تمہاری دولت تو یورپ اور امریکہ میں ہے۔ تمہیں پاکستان اور اس کے عوام سے کیا غرض؟۔
ہمارے میڈیا کو بھی اپنی چال بدلنے کی ضرورت ہے۔ گزارش ہے کہ میڈیا ہاؤس مالکان خوبصورت مگر عقل سے عاری چہروں کی جگہ محب وطن اور حالات کی نزاکت سمجھتے والوں کو اپنی سکرینوں پر لائیں جو سکرپٹ سے ہٹ کر بولنے کا سلیقہ جانتے ہوں اور اپنے ہی ملک اور عوام پر میڈیا وار مسلط نہ کریں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
53047