Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال میں سوشل ویلفئر اور اسپیشل ایجوکیشن ۔ تحریر: عبد الباری

شیئر کریں:

قومی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق افراد باہم معذوری کی بحالی لازم و ملزوم ہے ان کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔  اسی لیے ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر مختلف قسم کے قوانین مرتب کیے جاتے ہیں جن کے ذریعہ سے افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔

  افراد باہم معذوری کے لیے بنائے جانے والے اداروں کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ادارے افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ مملکت کے اندر ان اداروں کے ہوتے ہوئے افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود میں کوئی کسر باقی نہیں رہنا چاہیے۔ حکومت نے ہر شہر میں افراد باہم معذوری کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اور بنیادی حقوق تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے ہر شہر میں متعلقہ ادارہ قائم کر رکھا ہے۔ تاہم کئی ادارے افراد باہم معذوری  کی بحالی کے لیے اپنی گنجائش کے مطابق خدمات سرانجام دے رہے ہیں البتہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کار خیر میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

پاکستان کے دیگر شہروں میں لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اس کی وجہ سے ان کو ان کے حقوق بروقت میسر ہوتے ہیں، چترال پاکستان کا ایک پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں  کے لوگ اتنے سادھے اور سیانے ہیں ہیں کہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے میں بھی تاخیر کرتے ہیں۔ چترال کا ایک دیرینہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس کے لئے اب تک کسی نے آواز بلند نہیں کیا اور لوگوں کو اپنے اس حق کے بارے میں صحیح طرح علم بھی نہیں ہے میرا مقصد چترال میں موجود  خصوصی افراد کی بحالی ہے۔ خصوصی افراد کی بحالی کے  لیے چترال میں سوشل ویلفیئر کے دفاتر موجود ہیں اور تو اور  خصوصی تعلیم کے لیے ایک اسکول بھی موجود ہے۔ متعلقہ اداروں کے موجود  ہونے کے باوجود ابھی تک چترال جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے کے لوگوں کو معذور افراد کی فلاح و بہبود اور  ان کے حقوق تک رسائی کے طریقہ کار کے بارے میں لوگوں کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔

خصوصی افراد کی بحالی کے لیے پاکستان میں قوانین تو بنائے گئے ہیں اور انہی قوانین کے مطابق خصوصی افراد کے لئے بہت سارے سہولیات اور رعایات بھی میسر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد کون کرے گا۔ ملک کے حکمران خود اپس کی رسہ کشی میں مصروف ہیں ایسے اداروں کی طرف ان کی توجہ تو جاتی ہی نہیں وگرنہ چترال کے اس واحد ادارے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہیں ہوتا اور یہاں کے افراد باہم معذوری اپنے حقوق سے محروم نہیں ہوتے۔ اکیسویں صدی کے جدید دور میں سانس لینے والے چترال کے افراد باہم معذوری آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جبکہ پوری دنیا میں افراد باہم معذوری کو ان کے پورے پورے حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔

1986 کے حکمرانوں نے چترالیوں پرایک احسان یوں کیا کہ وہاں ایک اسکول برائے افراد باہم معذوری کے لیے بنائے لیکن اس کے بعد اس کی طرف نہ تو حکومتی اراکین نے توجہ دی اور نہ ہی چترال کی انتظامیہ نے۔ اور اب میں نے خود سے یہ عہد کیا ہے کہ میں اس طبقے کی نمائندگی انشاللہ ہر فورم پر کروں گا۔ میں حکومت وقت سے التماس کرتا ہوں کہ اس پینتیس سال سے جاری ظلم و ستم کو روکا جائے اور افراد باہم معذوری کو ان کے حقوق سے مزید محروم نہ رکھا جائے۔ لوئر چترال کے علاقے زرگران دہ میں 1986 سے ایم آر اینڈ پی ایچ  سنٹر کے نام سے ایک ادارہ فعال ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا ادارے سے عوام الناس نے کماحقہٗ فائدہ حاصل نہیں کر سکے، وجہ یہ ہے کہ ادارہ ہذا حکومت کی توجہ اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک کے اندر ہر اداروں کے ساتھ یکساں سلوک رواں رکھے تاکہ عوام کو یکساں حقوق میسر ہو سکیں۔

اگر آپ پاکستان کے دیگر شہروں میں جائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہاں خصوصی افراد کو ان کے حقوق تقریباً مکمل میسر ہیں اور ان کی بہتری کے لئے بھی ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں چترال میں خصوصی افراد  اپنے حقوق سے محروم  اور گھروں میں نظربند زندگی گزارنے پر مجبور  ہیں، اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے جو ادارہ بنایا گیا تھا وہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ جس طرح دیگر شہروں میں افراد باہم معذوری کی بحالی کے لیے بنائے گئے اداروں کو جو سہولیات فراہم کیے جا رہے ہیں ویسے ہی سہولیات چترال کے اس واحد ادارے کو بھی فراہم کیئے جائیں۔ اور عوام الناس کو اس سے استفادہ حاصل کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے۔

 خصوصی افراد کے لیے بنائے جانے والے اداروں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ یہاں سے فارغ ہونے والے افراد باہم معزوری اپنے لیے خود مختار زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق مذکورہ بالا ادارے میں سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود بھی اب تک بے شمار خصوصی افراد ایسے فارغ ہوچکے ہیں جو آج ایک خود مختار زندگی گزار رہے ہیں۔ میں بذات خود ایم آر اینڈ پی ایچ سنٹر چترال کے عملے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مشکل وقت میں اور سہولیات نہ ہونے کے باوجود بھی اب تک بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں اللہ رب العزت آپ سب کو اس کار خیر کا اجر عظیم ضرور عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔ میں چترال کی انتظامیہ اور حکومت وقت کے نمائندگان بالخصوص سیکرٹری سوشل ویلفیئر تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ میں نے شعبہ خصوصی تعلیم کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مذکورہ بالا ادارے کا دورہ کیا۔

جب میں وہاں پہنچا تو مجھے حیرانگی ہوئی کہ یہ ادارہ خصوصی افراد کی بحالی کے لیے تو بنایا گیا ہے لیکن بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہے۔ ادارے کے چند درینہ مسائل پیش خدمت ہیں۔ ادارہ ہذا کو کو ذاتی عمارت کی اشد ضرورت ہے جو افراد باہمی معذوری کے لئے قابل رسائی ہو، موجودہ عمارت کے اندر افراد باہم معذوری ایک کلاس سے دوسری کلاس تک آسانی سے منتقل نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ افراد باہم معذوری کے لیے جو بلڈنگ اسٹرکچر حکومت پاکستان نے متعارف کروایا ہے یہ بلڈنگ اس اسٹرکچر کے مطابق نہیں ہے۔ادارے میں ایک ہاسٹل کی اشد ضرورت ہے، تاکہ کہ چترال کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے خصوصی افراد بھی ادارہ ہذا سے استفادہ حاصل کر سکیں۔محکمہ سوشل ویلفیئر اور خصوصی تعلیم کے اس اسکول و دیگر متعلقہ دفاتر کو ایک چھت تلے تعمیر کیا جائے تاکہ عوام الناس کے لئے بھی آسانی ہو اور کرائے کے مکانوں سے بھی جان چھوٹ جائے۔

 ٹرانسپورٹ کے لیے لیے اضافی گاڑی بھی فراہم کیا جائے، موجودہ 16 سیٹر ٹوئٹا ادارے کے لیے ناکافی ہے۔ موجودہ اساتذہ کو  ٹریننگ دینے کی اشد ضرورت ہے، ان کی تعیناتی کے بعد اب تک انہیں کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی ہے۔ ادارہ ہذا میں اساتذہ کی انتہائی قلت ہے لہذا ادارے کی ضرورت کے مطابق اساتذہ و دیگر  عملے کی تعیناتی کو ہنگامی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے۔موجودہ اسٹاف کو انکے سروسز  کی بنیاد پر اگر ترقی دیا گیا یا تو مزید آسانیاں خالی ہوجائیں گے جس کی وجہ سے خصوصی طلباء کی بنیادی ضروریات کو مکمل نہیں کیے جا سکیں گے، اور ادارے کے لیے ممکنہ طور پر مزید مشکلات درپیش ہو جائیں گے۔ ادارہ ہذا میں چند بنیادی آسامیاں خالی ہیں جن کو ہنگامی بنیاد پر پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ اسٹاف ادارے کے لئے بالکل ہی ناکافی ہے۔ 

ادارے میں ایک سمینار حال کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام الناس کو آگاہی دینے کے لیے وقتا فوقتا مختلف نوعیت کی تقریبات منعقد کی جا سکیں۔


یاد رہے کہ خصوصی افراد کی بحالی میں ہمارے معاشرے کی ہی بقا ہے، تاکہ یہ لوگ ایک خود مختار زندگی گزار سکیں اور معاشرے پر بوجھ نہ بن سکیں۔  اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اللہ رب العزت نے انہیں کسی ایک قوت سے یا طاقت سے محروم رکھا ہے تو کسی دوسری قوت کو یا طاقت کو بڑھا چڑھا کر انہیں عطا کیا ہے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے پھر دیکھیں تماشہ کے یہ لوگ دنیا میں کیسے آگے پڑھتے ہیں آج بھی پاکستان سمیت پوری دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جو کہ خصوصی افراد نے اپنی انتھک محنت کی بدولت تاریخ کی صفحوں میں رقم کر چکے ہیں۔  انہیں بس صرف ان کے حقوق چاھئے وہ آپ سے اپنے حقوق مانگتے ہیں کوی بھیک نہیں۔

اگر آپ کے ہاتھ میں اختیار ہوتے ہوے آپ نے یہاں ان کے حقوق سے محروم رکھا تو یاد رکھئے کہ کہ بروز محشر ان کے رب آپ سے پوچھے گا لیکن پھر اس دن کوئی بخشش نہیں ہو گی۔ عوام الناس کے نام ایک مختصر پیغام یہ ہے کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے “کہ تم دنیا والوں پر رحم کرو میں تم پر رحم کرونگا” اسی بنیاد پر عوام الناس سے اپیل  ہے کہ افراد باہم معذوری کا خاص خیال رکھا جائے, ان سے ہمدردی رکھی جائے, ان کو اپنے برابر کا انسان سمجھا جائے٫ ان کے حقوق ان تک پہنچائے جائیں, ان پر تماشا اور ان پر ظلم کرنے سے پرہیز کیا جائے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔ 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
53024