Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کو کیسے فروغ دیں ؟ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

جنوبی ایشیاء معاشی لحاظ سے دنیا کا سب سے کم موبوطہ خطہ ہے جس کی علاقائی تجارت عالمی تجارت کا محض5%ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دائمی عدم اعتماد کی فضاء تصور کی جاتی ہے۔یورپ کی طرح  جنوبی ایشیاء کے ممالک بھی مشترکہ تہذیب و تمدن، رہن سہن، بود وباش،تاریخ اور زبان و ثقافت کے باوجود تقریبا یکساں مسائل اور خطرات کا شکار ہیں۔ مگر اس سب یکسانیت کے باوجود جنو بی ایشیاء میں علاقائی تعاون کی روایت اور تاریخ یورپی ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے دنیا بھر کے ممالک پرگہرے اثرات مرتب کیے جس کے نتیجے میں تمام ممالک کسی ایسے حل کے بارے غور کرنے لگے جس سے تجارت کے ساتھ دنیا میں امن کو فروغ ملے۔ 1980کی دہائی کے بعد دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی سوچ زیادہ تقویت اور مقبولیت اختیار کرنے لگی۔

نتیجتا یہ نظریہ بیشتر دیگر فکریات کی طرح جنوبی ایشیاء تک پہنچا اور 1985میں سارک کی بنیاد رکھی گئی۔ ساپٹا معاہدے پر1993میں دستخط کیے گئے اور سافٹا(آزاد تجارت کا معائدے) پر2006میں عمل درآمد کا آغاز ہوا۔ علاقائی تعاون کے لیے ان تمام اقدامات کے باوجود جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کی فضاء حوصلہ افزاء نہیں رہی۔ سارک تنظیم ایک تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ غیر فعال ہے اور جنوبی ایشیاء کے مسائل کو حل کرنے کی سکت، ارادہ اور وسائل سے محروم ہے۔ سارک تنظیم جنوبی ایشیاء کے لیے سافٹا(آزاد تجارت کا معائدہ) پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہو چکی ہے۔

خطے میں علاقائی تعاون کی کمی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں معاشی،غیر معاشی اور غیر علاقائی عناصر کی مداخلت قابل ذکر ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے دیگر ان گنت مسائل کی طرح ایک بڑا مسلہ معاملات میں لچک دکھانے کاشدید فقدان ہے جس پر خطے کی معاشی ترقی کا انحصار ہے۔ غیر علاقائی عناصر جنوبی ایشیاء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ وقت کی نزاکت اور ایشیاء میں امن اور تعاون کی ابتر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی ایشیاء میں ایک متحدہ بلاک بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سال2003-8جنوبی ایشیاء میں معاشی ترقی کے عروج کا عرصہ تصور کیا جاتا ہے جب اوسطا سالانہ ترقی کا تناسب7.8%رہا۔ اس عرصے کے دوران مشرق وسطی کے بعد جنوبی ایشیاء کی ترقی دوسری نمبر پر تھی۔ یہ خطہ ہنگامی توجہ اور تعاون کا منتظر ہے کیونکہ جنوبی ایشیاء میں دنیا کے 40%سے زیادہ غریب آباد ہیں،

دنیا کی تقریبا چوتھائی آبادی جنوبی ایشیاء میں بستی ہے اوریہ خطہ عالمی جی ڈی پی میں 3.3%مقامی خام مال کی پیداوار کی شراکت سے موجود ہے۔ جنوبی ایشیاء میں باہمی تعاون کے تحت مربوط تجارت میں 2008میں 4.5%سے بڑھ کر2015میں 7.6%تک پہنچ گئی جو 2018میں متوازن نوعیت اختیار کرتے ہوئے6.9%تک رہی۔ اگر یورپ اور ایشیاء پیسیفک کی مربوط علاقائی تجارت کا موازنہ جنوبی ایشیاء کی تجارت سے کیا جائے تو یہ شر ح ناکافی ہے۔ جنوبی ایشیائی ریاستیں غیر لچک دار تجارتی پالیسی پرکاربند رہتے ہوئے تمام تر کوششوں کے باوجود روائیتی اختلافات کی وجہ سے تجارت کو محدود کر دیتے ہیں۔ سال 2016میں جنوبی ایشیاء کااوسطا ٹیرف 13.6%تھاجو عالمی پیمانے پر اوسطا6.3%سے زیادہ ہے۔ جہاں تک حساس نوعیت کی تجارت کا تعلق ہے، جنوبی ایشیاء میں سارک ممالک کی برآمدات میں سے  44%سے 45%تجارتی ایشیاء حساس فہرست میں شامل ہیں۔

مثلا انڈیا کی 39%سے زیادہ برآمدات جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کی حساس فہرست میں شامل ہیں۔ علاقائی تعاون کی قلت کے مسئلہ سے نپٹنا بلاشبہ نہ صرف بہت زیادہ وقت کا طلبگار ہے بلکہ یہ سفر کافی کھٹن، سست اور تھکا دینے والا ہونے کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی نظر ہو جاتاہے۔ جنوبی ایشیا ء میں دیر پا علاقائی تعاون اور باہمی مربوط تجارت کے لیے تمام ریاستوں کا غیر روائیتی تعاون کی طرف ٹھوس اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں دنیا میں موجود دیگر جدید تجارتی اور شراکت داری کے نظریات پر غور کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح جنوبی ایشیاء بھی پرامن بننے کے علاوہ معاشی اور دیگر شعبوں میں تیزی سے ترقی کرے۔ غیر علاقائی عناصر کی مداخلت روکنے او رخطے کے معاملات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف ایک متحدہ اور مضبوط محاذ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیاء دنیا کے دیگر ممالک کی طرز پر چلتے ہوئے مرکزی اختیارات کی صوبوں کو تقسیم کے فارمولے پر بھی عمل درآمد کر سکتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں تمام تر مسائل کی جڑ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرنہ مسئلہ کشمیر ہے جسے حل کیے بغیر جنوبی ایشیاء میں کسی صورت بھی امن اور خوشحالی ممکن نہیں۔دونوں ممالک کشمیر پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اب دونوں ممالک کو اس رسہ کشی سے نکل کر کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر آزاد چھوڑدیں۔ غیر علاقائی عناصر جنوبی ایشیاء میں مداخلت کے عادی ہو چکے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ خطے میں کسی مضبوط علاقائی تعاون کی تنظیم کی عدم موجودگی ہے۔ خطے کے تمام ممالک کو اپنی پالیسیوں میں بدلاو اور لچک کے علاوہ باہمی تعاون کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی اشد ضروری ہے۔جنوبی ایشیا ء کے مسائل کو حل کرنے کی ماضی کی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طریقہ کار کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔

علاقائی ریاستوں کے زیادہ ترمسائل جغرافیائی اور سیاسی نوعیت کے ہیں اس لیے علاقائی تعاون اور باہمی مربوط اور پائیدار تعلقات کی بحالی اور بقاء کے لیے آسان سے مشکل کی طرف جانے کی ابتداء کی جائے۔ ایک اور بڑی وجہ جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین رابطہ سڑکوں اور زرائع کی قلت بھی ہے جس کی وجہ سے باہمی تجارت اور دیگر معاملات احسن طریقے سے سرانجام نہیں ہوپاتے۔ جنوبی ایشیاء میں طاقت کا عدم توازن، رابطوں کی کمی اور تحفظ سے متعلق خدشات کی وجہ سے علاقائی تعاون کی طرف ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ خطے کے بیشتر ممالک معاشی، دفاعی اور ڈپلومیٹک لحاظ سے مغربی ممالک پر انحصار کرتے ہیں اور خطے میں موجود متنوع تناو میں علاقائی تعاون کے بجائے غیر علاقائی عناصر کا سہارا لیتے ہیں جس نے جنوبی ایشیا ء کے مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔

عدم اعتماد کی اس فضاء کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ تمام ممالک کو مسائل کی نوعیت او ر نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے ان میں مطلوبہ تبدیلیوں اور باہمی تعاون کے لیے لچک اور اعتماد کی بحالی کی فضاء کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ خطے میں باہمی رابطہ کے لیے انفراسٹرکچر کی کمی ایک بہت بڑی رکاٹ ہے۔ زرائع نقل و حمل اور زرائع رسل و رسائل کی قلت علاقائی تعاون اور باہمی مربوط تجارت کے گراف کو بہت نیچے لے جاتی ہے۔ مثلا بھارت اور نیپال میں کل 22سے زیادہ تجارتی پورٹس ہیں اور 15پورٹ محض ٹرانزٹ ٹریفک کے لیے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں سے صرف 6زیر استعما ل ہیں۔ ایک اور وجہ بھارت کی اجارہ دارانہ اور سامراجی رویہ ہے جس کی وجہ سے خطہ معاشی، سیاسی، دفاعی اور سماجی میدانوں میں ترقی سے محروم ہے۔ سارک ممالک کی کل آبادی میں سے 75%آبادی بھارت کی ہے جو تقریباجی ڈی پی کا 80%بنتی ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے دونوں ممالک کی کل آبادی 10%اور جی ڈی پی میں شرح 7%بنتی ہے۔ خطے میں بھارتی دھمکیوں اور سامراجی نظریات کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی دیگر ریاستوں میں بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔

ایک اور وجہ مختلف ممالک کی سرحدوں کا بھارت کے ساتھ ہونا بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے سرحدوں پر کشیدگی اور جنوبی ایشیاء کی چھوٹی ریاستوں کے اندرونی معاملا ت میں بے جا مداخلت ہے۔ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی ایشیائی ممالک اپنی پالیسیاں علاقائی تعاون کے بجائے اپنی سلامتی اور دفاعی نقطہ نظرسے ترتیب دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء سے نوآبادیات کے جغرافیائی خاتمے کے بعد اس خطے میں مغربی سامراجیت نے اپنے پنچے گاڑھ رکھے ہیں۔ جنوبی ایشیاء مغربی ممالک کے اسلحہ کی فروخت کی بہت بڑی منڈی ہے اور خطے میں امن اور باہمی مربوط تعاون و تجارت ان کے لیے تجارتی نقطہ نظر سے درست نہیں ہے۔ اس لیے مغربی ممالک جنوبی ایشیاء اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود دیرینہ مسلہ کشمیر حل کرنے سے گریزاں ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52856