Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – پہاڑوں کا شہزادہ – محمد جاوید حیات

شیئر کریں:


ہائی سکول بمبوریت کے گراونڈ میں ولی بال کا میچ ہو رہا تھا ہمارے مخالف ٹیم مضبوط تھی۔باہر سے ایک مہمان نے کھیلنے کی خواہش ظاہر کی۔مخالف ٹیم نے کہا ہم مضبوط ہیں تمہیں کھیلا نہیں سکتے ہم نے کہا مہمان ہے ہم ان کو کھیلائیں گے ہم نے اس کو کھیلنے کی دعوت دی مسکرا کرقبول کیا اور کنارے میں ایک سایڈ پہ کھڑا رہا۔ظالم نے چپل پہن رکھا تھا۔۔مہمان تھا ہم کیسے کہتے بھائی چپل پہن کرکھیلا نہیں کرتے۔۔مہمان کا قدکاٹھ کھلاڑیوں کاتھا۔چریرابدن،ہنستامسکراتاچہرہ،نرم لہجہ،لمبوتراقد،،مخالف ٹیم نے زور جمائی۔nine…love..ہائے اللہ اب ہم ہارینگے بُری طرح شکست کھائیں گے۔۔

اس سمے مہمان نے کہا ذرا سروس مجھے پکڑوا دو۔گراونڈ سے ذرا پرے ہٹ کر بال اوپر اچھالا اور خود بھی چھلانگ لگا کر بال کو مارا مخالف ٹیم پر ہیبت طاری ہو گئی کوئی بھی بال اٹھا کر نہیں کھیل سکتا تھا۔ ہر سروس پائنٹ پہ تھا مسلسل نو سروس بال نو پائنٹ۔۔لو nine each.. اس نے سروس چھوڑ دیا تماشائی چیخ رہے تھے۔ہم نے ایک دوسرے کے کان میں کہا۔۔۔

پشاور میں کسی کلب کا کھیلاڑی ہو گا۔۔واقعی ایسا تھا۔نام ذوہیب اللہ تھا۔۔اپر دیر سے تعلق تھا پشاور میں ایک نامی گرامی کلب کا کھیلاڑی تھا۔کلب میں نام ذہیب جان تھا واقعی کھیل کی جان تھا۔۔ذوہیب نے پشاور یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔سرحد یونیورسٹی سے sports science میں ماسٹر کیا۔۔پشاور ڈایریکٹریٹ ٹوریسٹ سروس جائن کیا سب انسپکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ولی بال اس کا ٹیلنٹ اور Identity ہے۔ولی بال اس سے سجتی ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ صلاحیتوں کے لحاظ سے بھر پور ہے کوئی بھی میدان ہو اس کے جوان اپنا لوہا منواتے ہیں۔

ذوہیب کا تعلق دیر اپر سے ہے اس لیے میں اس کو پہاڑوں کا شہزادہ کہتا ہوں۔ اس نے ولی بال سکول سے سیکھی اساتذہ نے حوصلہ دیا تو گاؤں سے سیکھی پھر کالج اور یونیورسٹی کی سطح پہ کھیلا اور نام پایا۔ذوہیب ہمارے ساتھ دو دن رہے سارا گاؤں ان کا کھیل دیکھنے امڈ آیا۔ سوال ٹیلنٹ کا ہے اگر ذوہیب کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو قیمتی ترین کھیلاڑی ہوتا۔۔بڑے بڑے کلب اس کو افر کرتے کروڑوں کماتے لیکن یہاں پہ ٹیلنٹ کی قدر نہیں۔۔ہنر ہنرور کے ساتھ مر جاتا ہے۔ذوہیب اس علاقے میں اپنا نشان چھوڑ گیا اس کا اخلاق اس کا نرم رویہ اس کا ٹیلنٹ سب نمایان تھے۔وہ قوم کا ایک ایسا فرزند ہے جو بقول اقبال قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے۔

اس سے ملنا اس کو جانچ پرکھنا اس کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے پھیلانا ہمارا فرض بنتا ہے کیونکہ موتی سیپی کے اندر جب تک ہے اس کی قدر کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ذوہیب کے ہنر کی قدر ہونی چاہیے۔اور اس کو موقع فراہم کرنا چاہیے کہ وہ ٹیلنٹ (ہنر) دوسروں تک منتقل کرے۔ذوہیب بہت دلکش شخصیت کے مالک ہیں صرف دو دن میں ہم سب سے ایسے گل مل گئے کہ سب اس کو یاد کرتے ہیں۔ایسی کرشماتی شخصیت کے لوگ کم کم ملتے ہیں۔

ان کی وجہ سے اس کے ڈیپارٹمنٹ کی عزت افزائی ہوئی کہ یہ ڈیپارٹمنٹ ایسے ہیروں کو پالتا ہے۔ذوہیب ایسے اردو بولتے تھے کہ ہمیں اردو سے پیار آیا۔لوگوں سے ایسے ملتے تھے ہمیں اس کے اخلاق پہ حیرانگی ہوئی۔یہ لوگ مثل موتی ہوتے ہیں اور ہر کہیں اپنے ادارے اپنے علاقے اپنے قبیلے اور اپنی اور ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔ذوپیب جان کے جانے کے بعد سب نے اس کو بہت مس کیا۔سب نے اس کا پوچھا۔اس گراونڈ میں ولی بال اب بھی کھیلا جا تا ہے لیکن ذوہیب جان نہیں البتہ ان کے نام کی لاج سے ہم ولی بال کھیلتے رہیں گے۔۔ذویب جان کو ہم یاد کرتے ہیں۔اللہ اس کو خوش رکھے۔۔۔۔


شیئر کریں: