Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جدید معاشرے میں ڈیجیٹل تربیت کی اہمیت – پروفیسر عبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

کیا آپ کا بچہ محفوظ ہے؟ اولاد کے معاملے میں والدین بہت حساس ہو تے ہیں۔ یونیسیف کی ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں 3میں سے 1بچہ انٹرنیٹ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ بلخصوص نوجوان کو اس ڈیجیٹل لہر میں بہت زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔موجودہ نسل ڈیجیٹل دور میں پروان چڑھنے والی پہلی نسل ہے۔ ڈیجیٹل مشینیں جیسا کہ موبائل،کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ زندگی کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں۔اس ضمن میں والدین کی ڈیجیٹل ذمہ داری اور تربیت کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ڈیجیٹل تربیت کا مطلب صرف بچوں کو مختلف اشیاء کا استعمال سکھانا یا مہیا کرنا ہی نہیں بلکہ انہیں ان مشینوں کا درست استعمال سکھانے کے ساتھ خود بھی سیکھنا شامل ہے تاکہ والدین بچوں کی ڈیجیٹل تربیت میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاعلم  والدین کسی صورت بھی اپنے بچوں کو انٹرنیٹ کے منفی استعمال سے نہیں روک سکتے۔ موجودہ دور میں تربیت کا پرانا طریقہ جدید طرز پر منتقل ہو چکا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی بہترین تربیت کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال، کنڑول، انتظام اور تحفظ سے متعلق مہارتیں سیکھنی ہو ں گی۔ دنیا بھر میں کل آبادی کا 71%آن لائن رہتا ہے، 56%ویب سائٹس انگریزی میں دستیاب ہیں جو انگریزی نہ جاننے والوں کی مذہبی، ثقافتی، زبانی اور اخلاقی اقدار کے یکسر منافی ہیں اور انہیں متعلقہ مواد کی تلاش میں سخت مصائب کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ 12سال سے کم عمر کے 71%والدین کو اپنے بچوں کے بے تحاشہ موبائل وغیرہ کے استعمال پر شدید تشویش ہے جن میں سے 31%اس حوالے سے ہیجانی کیفیت کا شکارہ ہیں تاہم 39%والدین ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے مطمئن ہیں اور 45%اپنے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور لیپ ٹا پ وغیرہ کے استعمال کے لیے مخصوص وقت دیتے،ان کی نگرانی کر تے اور بہتر استعما ل کے مشوروں کی حوصلہ افزائی بھی کر تے ہیں۔

11سال سے کم عمر کے 61%والدین ڈیجیٹل کے استعمال کے حوالے سے صرف پیشہ وارانہ ماہرین سے مشاورت کو ترجیح دیتے، 55%دوسرے والدین سے مشاورت کو ترجیح دیتے جبکہ 45%اس ضمن میں اساتذہ سے مدد لیتے۔ والدین بچوں کی نشوونما میں کمی کی وجہ سمارٹ فونز کو قرار دیتے ہیں اور ان کے دیرپا مضمرات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ 71%والدین کا ماننا ہے کہ سمارٹ فون کے بے تحاشہ استعمال فائدے سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔80%والدین کاکہنا ہے کہ ان کا 5سے11سال کا بچہ کبھی کبھار فون استعمال کر تا ہے، 63% نے یہی رائے سمارٹ فونز کے بارے دی جبکہ 5سال سے کم عمر کے بچوں کے والدین کی رائے بلترتیب48%اور 55%رہی۔ 11سال سے کم عمر کے بچوں کے محض36%والدین نے کہا کے ان کے بچے کبھی کبھار وائس ایکٹیویٹڈ مدد سے موبائل استعمال کر تے ہیں جیسا کہ ایپل سیری یا امازون الیکسا۔ 5سال سے 11سال عمر کے بچوں کے 46%والدین میں بچوں کے ڈیجیٹل استعمال سے متعلق تحفظات ہیں جبکہ 3سے4سال کی عمر میں یہ شرح 30%ہے اور 3سال سے کم یہ شرح14%رہ جاتی ہے۔

56%والدین اپنے بچوں سے کہیں زیادہ وقت اپنے موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں اور 68%والدین بچوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے فون کی طرف مگن ہو جاتے ہیں۔73%والدین کی نظر میں بچوں کو اپنا موبائل 12سال کی عمر کے بعد لیکر دینا چاہیے، سمارٹ فون کے حوالے سے 45%والدین کی رائے بھی یہی ہے جبکہ 28%والدین کے مطابق بچوں کو موبائل 15-17سال کی عمر کے درمیان لیکر دینا چاہیے۔صرف 22%والدین کے مطابق بچوں کو 12سال کی عمر سے پہلے موبائل لیکر دینا درست ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق70.55%والدین طلبہ کی جانب سے سکولزسے متعلق انٹرنیٹ کے استعمال کے بارے منفی جبکہ29.45%مثبت رائے کے رکھتے ہیں۔

اگرچہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے موبائل فونز کے استعمال پر پابندی ہے تاہم اس کے باوجود 9-11سال کی عمر کے 30%طلبہ تعلیمی اداروں میں موبائل فونز استعمال کر تے ہیں۔ دنیا بھر میں دیگر عدم مساوات کے برعکس ڈیجیٹل کے استعمال میں کوئی خاطر خواہ فرق دیکھنے میں نہیں ملتا۔ افریقہ میں 0.9%,جنوبی امریکہ کے کچھ حصوں میں 2.9%اٹلی میں 2.6%,،گاہنا میں 12%، فلپائن میں 21%، اور البانیہ میں 26%بچے انٹرنیٹ استعمال کر تے ہیں جبکہ اس کے برعکس جنوبی امریکہ اور یورپ کے دیگر حصوں میں انٹرنیٹ سے منسلک بچوں کی تعداد54-63%ہے۔مغربی ممالک میں والدین کے نصیحت آموز اور سمجھانے کے انداز کے برعکس مشرقی ممالک میں بچوں کو سمجھانے کے بجائے ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ اس سخت روئے، ڈانٹ اور پابندیوں کی بنیادی وجہ والدین یا نگران کے پاس ڈیجیٹل سکلز کی کمی ہے۔ تحکمانہ اور اجارہ دارانہ رویہ بچوں کی ڈیجیٹل اور تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

جدید معاشرے میں والدین کے پاس ڈیجیٹل رہنمائی اور نگرانی کی مہارتوں اور علم کی کمی کی وجہ سے وہ بچوں پر سختی کرنے کا طریقہ اختیار کرتے جس کی وجہ سے بچے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں دوسرے بچوں سے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ موجودہ ڈیجیٹل نسل کو مناسب مشاورت، رہنمائی تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہے جیسا کہ والدین ڈیجیٹل دور سے پہلے یہ کام کیا کرتے تھے۔ اگر ہم تربیت کا وہی طریقہ ڈیجیٹل انداز میں اختیار کر لیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ترقی پذیر یا کم ترقی تیافتہ ممالک کے بچوں کے ساتھ بیشتر مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر بچے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کے بغیر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتے ہیں۔اس کے نتیجے میں بچوں کی ڈیجیٹل مہارتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اور وہ ٹیکنالوجی کی محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی کی اس تقسیم اور عدم مساوات کو ختم یا کم کرنے کے لیے ادارے اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ اوسطا والدین کی ڈیجیٹل مہارت اور معلومات 14سالہ بچے کے برابر یا اس سے قدرے کم ہے۔

بچے والدین کی عدم ڈیجیٹل مہارت اور معلومات کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ کا غیرضروری اور غیر متعلقہ استعما ل کر تے ہیں۔ مغربی ممالک میں بچے اپنے ساتھ ہونے والے تجربات اور واقعات کا تبادلہ والدین سے کر تے ہیں جبکہ مشرقی ممالک میں یہ رجحان انتہائی کم ہے۔ کچھ والدین بچوں کو مہارتوں اور ڈیجیٹل لرننگ کے لیے پیشہ وارانہ افراد کے ذمہ لگاتے ہیں مگر وہ تمام زرائع بھی کسی طرح قابل اعتماد اور قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ 2007میں WHOنے والدین کی ڈیجیٹل تربیت اور مہارتوں کے لیے ایک فریم ورک ترتیب دیا تھا جس کو اختیار کر کے بچوں کی درست ڈیجیٹل رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر کے والدین میں سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کے ڈیجیٹل استعمال کے بارے میں بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اگرچہ مختلف فورمز، ڈیجیٹل کمپنیاں او ر ماہرین بھی رہنمائی کے لیے اپنی خدمات دے رہے ہیں تاہم والدین ان پر مکمل اعتماد کرنے سے گریزاں ہیں۔

24ممالک سے لیے گئے ڈیٹا کے مطابق97%حاملہ خواتین رہنمائی کے لیے انٹرنیٹ، 94% انٹر نیٹ سپلیمنٹ معلومات استعمال کرتی ہیں جبکہ 48.6%طبعی ماہرین سے نالاں اور غیر مطمئن دکھائی دیں کیونکہ یا تو ان کے پاس پیشہ وارانہ ماہرین کے سوالوں کے جوابات نہیں یا وقت کی شدید قلت ہے۔سال 2015میں ایپل نے رنگ ٹونز خواتین کی صحت سے متعلق سیٹ کیں تاہم انٹر نیٹ کا استعمال کر نے والی غیر سفید فارم، کم آمدنی والی اور انگریزی زبان میں مہارت نہ رکھنے والے افراد ڈیجیٹل دنیا کے وحشیانہ چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ مختلف ایپس پر دی جانے والی رائے بھی جعلی ہوتی اور اکثر درج کچھ ہوتا اور جب استعمال کریں تو عملی طور پر ایپ اس کے برعکس ہوتا۔

ایپس انفرادی ڈیٹا چوری کرنے کے لیے بھی بدنام ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا جس کی سب سے بڑی وجہ ڈیجیٹل کرائم سے متعلق آگاہی کی کمی اور ٹھوس قوانین کی عدم موجودگی ہے۔ اکثر اوقات استعمال کرنے والا یا تو شرائط کو پڑھتا ہی نہیں اگر پڑھ بھی لے تو ڈیجیٹل معلومات کی کمی کی وجہ سے انہیں سمجھنے سے قاصر رہتا۔ ایک تحقیقی فرم کے مطابق آئیندہ سالوں میں بچوں سے متعلق ڈیجیٹل کی دنیا میں بہت تیزی سے اور بہت زیادہ ترقی دیکھنے کو ملے گی جس کی وجہ سے والدین کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گا۔ بچوں کے تحفظ سے متعلق والدین کا فلسفہ ڈیجیٹل تحفط مزید تقویت اختیار کرے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2010میں ایسٹونین کے محض 16%لوگ اپنے بچوں کے انٹرنیٹ استعمال کے بارے تکنیکی فکر مند ی کا شکارتھے2018میں یہ تعداد بڑھ کر 37%سے تجاوز کر چکی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52609