Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شمال کے ایدھی – تحریر: شیرولی خان اسیر

شیئر کریں:

شمال کے ایدھی – تحریر: شیرولی خان اسیر

گلگت میں قیام کے دوران کافی دنوں سے قدرت کی صناعیوں میں کھویا رہا جب گلگت کے دیہات اور ہنزہ و نگر، استور، دیوسائی، سکردو, شگراور غیرز کے ویشرگوم ( ورشگوم) گھومنے گیا۔ کہیں ماضی کی گلی کوچوں میں گھومتا رہا، کہیں پیارے لوگوں کی محفلوں سے محظوظ ہوا تو کہیں انواع و اقسام کی ضیافتیں اڑاتا رہا۔آج ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا ہے جہاں ایک طرف دل و جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے جاتے ہیں تو دوسری طرف ان ٹکڑوں کو جوڑ کر اس میں نئی زندگی پھونکی جارہی ہے جس سے دل کو ایک زبردست روحانی سرشاری مل جاتی ہے کہ دنیا میں دکھی انسانیت کے دردناک زخموں پر پھاہا رکھنے والے انسان ابھی اس بے درد دنیا میں موجود ہیں۔ میری ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہوئی جن کو ایدھی ثانی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

اس بے رحم دنیا میں ٹھکرائے ہوئے انسانوں کو سینے سے لگانے والے شاذ و نادر ہی ملیں گے۔ ہمارے ملک میں عبدالستار ایدھی مرحوم ہی تھے جس نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیاں دکھی انسانیت کے لیے وقف کردی تھیں اور رضاکارانہ خدمت خلق کا سورج بن کر آسمان انسانیت پر چمکا اور ان کے گزرنے کے بعد بھی اس کی روشنی ہمارے کیے مشعل راہ اور مظلوم آدم زاد کے لیے امید کا روشن چراغ ہے۔ ان کی جہد مسلسل نے لاکھوں دکھی انسانوں کی نہ صرف زندگیاں بچائیں۔ بلکہ ان کو باعزت شہری کی زندگیاں گزارنے میں مالی، جسمانی اور روحانی مدد بہم پہنچائی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد عبدالستار ایدھی ہی پاکستان اور اہل پاکستان کے سچے ہمدرد تھے۔15 ستمبر کے دن کے تیسرے پہر مجھے اپنی بیگم، بیٹی ڈاکٹر زبیدہ اسیر اور برخوردارم نیر شمس کے ساتھ سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز جوٹیال گلگت کے مکینوں سے ملنے کا موقع ملا۔ دخترم ڈاکٹر زبیدہ سرنگ نے بذریعہ فون ادارے کے چیرمین جناب شیرباز خان سے وقت لیا تھا۔ شیر باز خان اور ان کی دختر نیک اختر مس صدف نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ دو پیارے پھول جیسے بچوں نے گلدستہ پیش کرکے ہمارا استقبال کیا۔

اس کے بعد سینا سروسز کے دفتر میں ہمیں بریفنگ دی گئی۔ شیربازخان کے اس عظیم الشان سفر خدمت کے دوران پیش آنے والے واقعات کی پردرد جھلکیاں دیکھ کر ایک طرف دل لہولہاں ہوتا گیا تو دوسری طرف اس بڑے آدمی کی عظمت کو سلام کرتا گیا کہ اس نے ایدھی کے نقش قدم پر چل کر دکھی انسانیت کو گلے لگایا ہے۔ اس کے بعد نرسری میں بچوں سے ملاقات کی۔ ایک بچہ عرفان اور بچی کائینات معذور تھے۔ انہیں دیکھ کر میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔ ان کے سروں پر ہاتھ پھیر کر پیار دینے کے سوا کیا کر سکتا تھا؟ ایک ڈیڑھ سال کی بچی اپنی آیا کی گود میں کھیل رہی تھی۔ یہ لاوارث بچے ہیں جنہیں ان کے بیالوجیکل ماں باپ نے اپنی جھوٹی عزت بچانے کے لیے پھینک دیا تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے شیر باز خان جیسے پیار کرنے والے باپ اور ان کی اہلیہ جیسی ممتا سے لبریز ماں اور اس کے خاندان کے سپرد کیا ہے۔

chitraltimes sher wali khan aseer and mrs hunza visit sher baz khan

ان بن ماں باپ کے بچوں کی بہترین پرورش کا انتظام دیکھا اور دل سے سراہا۔ ہوسٹل کے ہال میں بڑے بچوں سے ملاقات کی۔ چار پانج سال سے لے کر پندرہ سولہ سال کے بچے اور بچیاں یہاں موجود تھے۔ بچوں کو صحت مند اور خوش و خرم پایا۔ البتہ ایک چند بچے مجھے افسردہ اور بجھے بجھے بھی نظر آئے۔ غالباََ یہ وہ بچے تھے جن کو شدید جذباتی صدموں سے گزرنا پڑا تھا اور وہ اس درد کو بھول نہیں پائے تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کسی نہ کسی حادثے میں مرگئے تھے یا مارے گئے تھے اور یہ دنیا میں تن تنہا رہ گئے تھے۔ ان میں ایسے بچے بھی تھے جن کے والدین تو زندہ تھے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سےان کو پالنے سے معذور تھے۔ شیرباز خان نے اپنی بیگم اور بچوں کی مدد سے ان بچوں کے لیے یہاں گھر کا اعلے ماحول مہیا کیا ہوا ہے۔ ان کو والدین کا پیار مل رہا ہے۔ ان کو کھانے پینے کے لیے معیاری خوراک، صاف ستھرے کپڑے، اچھی رہائش گاہ، صحت کی بہترین نگہداشت اور تفریح کی تمام سہولیات موجود ہیں۔

یہ بچے اپنی صلاحیتوں کے مطابق شہر اور باہر کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ شیرباز خان صاحب کا یہ فلاحی ادارہ ان بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بھی اٹھاتا ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے مسٹر شیر باز خان خدمت خلق کا یہ اعلےٰ و ارفع کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے 1990 میں اپنے دوست احباب کے تعاون سے بطور بلڈ ڈونر ایک چھوٹا ادارہ قائم کیا۔ بلڈ ڈونیشن کا خیال اسے اس وقت پیدا ہوا تھا جب ایک دن مقامی ہسپتال میں جوان سال خاتون خون نہ ملنے کی وجہ سے زچگی کے عمل سے گزرتے ہوئے فوت ہوگئ تھی۔ اس عورت کو اس کے شوہر نے خون دینے سے انکار کیا تھا۔ اس واقعے نے رحم دل شیرباز خان کو بہت متاثر کیا تھا۔ اس نے بلڈ ڈونرز گروپ تشکیل دیا۔گلگت میں مقیم پاک آرمی کے اس وقت کے کمانڈنٹ سے ملاقات کرکے ان سے مدد مانگی تو اس صاحب نے سی ایم ایچ کی لیبارٹری اور ٹیکنیشن کی خدمات فراہم کیں۔

اس کے علاؤہ یہ چھوٹا فلاحی ادارہ نادار مریضوں کی ادویات اور ماہرانہ علاج کے لیے اسلام آباد اور کراچی بھیجنے کا انتظام بھی کرنے لگا۔لاوارث اور انتہائی غربت کا شکار بچوں کے لیے گھر کا انتظام کرنے کا خیال بھی اسی طرح کے دردناک واقعے سے ہوا تھا جب ایک دن شیر باز خان کی بیگم کو اس کے اپنے گھر کے دروازے کے باہر ایک لاوارث نومولد بچی ملی تھی۔ بیگم شیرباز خان ملازمت سے چھٹی ہوکر جب اپنے گھر کے قریب پہنچی تو پڑوسی خواتین کا ایک جمگھٹا دیکھا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ دریافت کیا تو اسے چھیتڑوں میں لپٹی بچی فرش پر پڑی دکھائی گئی۔ بیگم شیرباز نے ان سے پوچھا، ” تم لوگوں نے اسے اٹھایا کیوں نہیں؟” انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا،” یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ایک ناجائز بچی کو ہاتھ لگائیں” ۔ بیگم شہباز نے انہیں ڈانٹ کر بھاگا دیا اور بچی کو اپنے گھر لاکر نہلائی اور کپڑے پہنائے۔ بوتل کے ذریعے دودھ پلائی۔

جب شیرباز اپنے دفتر سے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا کہ اس کی بیگم نے ایک ننھی جان کو بچانے کی کوشش کی تھی۔شیرباز خان اور اس کی بیگم کے لیے مسلہ یہ تھا کہ دونوں ملازمت کر رہے تھے۔ بچی کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے محترمہ بلقیس ایدھی سے کراچی رابطہ کیا تو انہوں نےبچی کو اسلام آباد لاکر ایدھی ٹرسٹ کے اہل کاروں کے حوالے کرنے کو کہا۔ شیرباز خان اور بیگم نے وہ بچی اسلام آباد کے جاکر ایدھی ٹرسٹ کے سپرد تو کیا لیکن ان کو اس قسم کے دوسرے بچوں کی فکر بھی لاحق ہوئی۔ اس نے بے سہارا بچوں کے لیے ایک گھر قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اپنے حلقہ یاراں کے ذریعے گلگت بلتستان کا سرسری سروے کرایا تو دس بارہ ایسے بچے مل گئے جو اپنے ماں باپ سے محروم تھے یا غربت کی لکیر سے نیچے گھرانے کے تھے جن کی تعلیم تربیت والدین کے لیے ممکن نہ تھی۔ شیرباز خان کا کہنا تھا کہ اس پروجیکٹ کے لیے اس کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا۔ اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کیا تو مخیر حضرات سامنے آنے لگے اور یہ کار خیر عظیم آگے بڑھتا گیا۔ شیرباز خان کے اس فلاحی ادارے کی مدد سے اب تک ساٹھ بچے بچیاں اعلے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور با عزت زندگی گزارنے کی طرف گامزن ہیں۔ ایک جوان کمرشل پائلیٹ بھی بن گیا ہے۔ کئی ایک پیشہ وارانہ شعبوں میں بی ایس کر چکے ہیں۔ فی الوقت کل 95 بچے اور بچیاں سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز کی زیر کفالت روشن مستقبل کی طرف محو سفر ہیں ۔

ان میں سے 16 بچے یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔شیرباز خان اور ان کی بیگم کا اپنے ادارے کے بچوں سے اتنا پیار ہے کہ انہوں نے اپنے دو بیٹوں کے لیے بہویں بھی اسی ادارے کی پروردہ بچیوں میں سے ہی چن لی ہیں۔ اب تک درجنوں بچوں کو بہترین ماں باپ کو بحیثیت متنبی سونپ دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نا معلوم شناخت کے بچوں کو وہ ہر صورت میں اڈاپشن کے لیے بہترین جوڑیوں کے حوالے کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ ظالم معاشرتی نظام انہیں جینے نہیں دے گا۔ شیرباز خان کا کہنا سو فیصد درست ہے۔ یہاں گناہ کرنے والے قابل صحبت اور معصوم قابل نفرت ہوتے ہیں۔

زنا کاروں سے نفرت کے بجائے اس کے نتیجے میں دنیا میں آنے والی معصوم جان کو لغنت ملامت کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس قسم کے بچوں کے حقوق کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔اس وقت سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز گلگت ایک مستحکم بڑا ادارہ بن گیا ہے جس کے پاس سو بچے بچیوں کے لیے رہائش گاہ کی گنجائش اور دیکھ بال کے لے سٹاف موجود ہے۔ میں اپنے دوستوں اور عزیزوں سے گزارش کروں گا کہ جس سے جو کچھ بھی ہوسکے سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز گلگت کے بچوں کے لیے کریں۔ اس سے بہتر کار خیر نہیں ہوسکتا۔ اس ادارے کو مالی استحکام ہوجائے تو اس کی شاخیں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کھولی جا سکتی ہیں ۔

سکول کے ایک بچے کی پرورش ( جملہ اخراجات بشمول تعلیم و تربیت) پر سالانہ خرچہ 149000 پاکستانی روپیہ آتا ہے جبکہ یونیورسٹی کے ایک طالب العلم پر 4 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر میری جتنی مالی حالت رکھنے والے خواتین و حضرات کے گھرانے ایک ایک طالب العلم کو سپانسر کرنے کا بیڑہ اٹھائیں تو ان جیسے کروڑوں بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ ملک کا کوئی بچہ تعلیم، صحت اور معاشی لحاظ سے محروم نہیں رہ سکتا۔ اللہ پاک ہمیں بھی توفیق عطا کرے کہ ہم بھی عبدالستار ایدھی اور شیرباز خان کی تقلید کر سکیں۔

chitraltimes sher wali khan aseer and mrs hunza visit

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
52555