Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

امریکی خارجہ پالیسی میں خوشگوار تبدیلی۔محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد امریکہ کی خارجی پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کابل سے واپس آگیا ہے۔ افغانستان سے انخلاء حکومتی پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی کوظاہر کرتا ہے کہ امریکہ معمول کے مطابق عالمی کردار میں واپس نہیں آئے گا۔جو بائیڈن نے کہا کہ کابل سے فوجی انخلاء کا فیصلہ صرف افغانستان کے بارے میں نہیں ہے، یہ دیگر ممالک میں بڑی فوجی کارروائیوں کا دور ختم کرنے کے بارے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز ہوں گے تاہم یہ فوجی تعیناتیوں کے ذریعے نہیں ہوگا۔امریکی صدر کے اس اعلان نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ خود امریکہ میں بھی صدر بائیڈن کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم اکثریت اس فیصلے کو سراہتی ہے۔اٹلانٹک کونسل کے ڈائریکٹر بینجمن حداد نے اس تقریر کوگزشتہ دہائیوں میں کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے بین الاقوامی لبرل ازم کی سب سے واضح تردید قرار دیا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ اعلان ان امریکیوں کے لیے جو اپنے ملک کو ایک منفرداور ناقابل تسخیر سپر پاور تصور کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔جو بائیڈن کی پالیسیوں کو عام طور پر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے موقف کی تردید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جو بائیڈن کے اوول آفس میں داخل ہونے کے بعد امریکہ کا طرز عمل تبدیل ہوچکا ہے جو بائیڈن کا امریکی فوجی مہم جوئی ترک کرنا”دنیا کا پولیس مین“بننے کے تصور کی نفی ہے۔

عالمی امور کے ماہر پروفیسر چارلس فرینکلن کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کا یہ اعلان کہ ‘اب وقت آگیا ہے کہ یہ ہمیشہ کی جنگ ختم ہوجائے، ساری دنیا کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔ امریکی صدر کا موقف ہے کہ آج امریکی عوام بڑے بین الاقوامی کردار کے لیے پرعزم نہیں ہیں،اب ہمیں دوسروں کا غم بانٹنے کے بجائے اپنے گھر کے معاملات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ جو بائیڈن کا نظریہ ہے کہ امریکہ ایک بڑھتا ہوا عالمی پولیس نہیں ہو سکتا تاہم یہ ایک دوستانہ کمیونٹی لیڈر ہو سکتا ہے۔امریکی صدر کے اعلان نے ان کے نیٹو اتحادیوں کوپریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ وہ کابل سے عجلت میں فوجی انخلاء اور آئندہ ملک سے باہر فوجی کاروائیوں میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔کیونکہ یورپی ممالک کی چوہدراہٹ امریکہ کے بل بوتے پر قائم تھی۔برطانوی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلاء اور آئندہ کسی ملک میں فوجی مداخلت نہ کرنے کے اعلان کے بعد امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور نہیں رہا۔

واشنگٹن میں عرب سینٹر کے ریسرچ ڈائریکٹر عماد ہارب نے کہا کہ صرف یورپی شراکت دار اکیلے حیرت میں نہیں ہیں۔امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کے عادی عرب حکومتوں کو بھی صدر بائیدن کے فیصلے سے پریشانی ہوئی ہے۔امریکی صدر کے اس بیان کو تاریخی حقائق کے پس منظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت پسندانہ نظر آتا ہے۔ گذشتہ چار پانچ عشروں میں دنیا کے مختلف علاقوں میں فوجی کاروائیوں سے امریکہ کو جانی و مالی نقصان اور ذلت و رسوائی اور پسپائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ویت نام، عراق اور افغانستان کی جنگ کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ بے مقصد، لامتناعی اور تھکادینے والی جنگوں نے امریکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے۔ وہ کھربوں ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ملک کے اندر پیدا ہونے والے سنگین بحران سے بچنے کے لئے ضروری تھا کہ خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی لائی جائے۔ آنے والے وقتوں میں امریکہ دنیا کو ایک جانبدار پولیس مین کے بجائے ایک غیر جانبدار مصالحت کار نظر آئے گا۔اور قوموں کے درمیان تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں آئندہ امریکہ کا مثبت اور فیصلہ کن کردار ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52234