Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لاہور واقعہ – صوفی محمد اسلم

شیئر کریں:

14اگست 2021 شام کے 06بجے عائیشہ اکرام بیگ نامی ایک ٹک ٹوکر لاہوراقبال پارک میں اپنے چند ٹیم ممبرز کے ساتھ داخل ہوتی ہے۔ ٹک ٹوک ویڈیو بنانے اور مداحوں سے سلفی لینے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا ہجوم  اسے گھیر لیتی ہے۔ شرارتی لڑکوں  نے اس کی جسم پر ہاتھ پھیرنے نے لگتے ہیں،اس کو ہوا میں اچھالی جاتی ہے ، گسیٹا گیا، اسے کے کپڑے پھاڑے گئے۔ اس کے جسم کو نوچھا گیا۔ اس واقعہ کا ویڈیو نیشنل اور انٹر نیشنل پرنٹ اور ڈجیٹل میڈیا میں خوب وائرل ہوئ۔ یہ ویڈیو ہمارے مغاشرے کی امیج کو بہت متاثر کیا۔ 


اس واقعہ کی بابت جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے وہ سب احتیاطی تدابیر ہیں. کوئ لڑکی کو اس سارا واقعہ کی زمہ دار قرار دیتے ہیں کہ عائیشہ مداحوں کو گزشتہ دن پارک میں اپنی آمد  کی خبر دی تھی اور دوسروں کو بھی پارک میں انے اور سلفی لینے کیلئے کہی تھی۔ کہتے ہیں کہ ٹک ٹوکر فلائینگ کس بھی کررہی تھی۔ ان واقعات کو جواز بناکر بعض لڑکی کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔


دوسرا طبقہ لڑکوں  کے حرکتوں  کو بداخلاقی قرار دے کر کہتے ہیں کہ فرض کرے عائیشہ ان مداحوں کو بلائ بھی تو کیا ہجوم کو حق حاصل ہوگیا  کہ کسی نامحرم کو چھوئے ،کسی عورت کے جسم کے ساتھ کھیلے ۔اگر کوئ  گھر تالا لگانا بھول جاتا ہے یا دانستہ بھی تالا نہیں ڈالا تو یہ چور کو لوٹنے کی اجازت و سند تو نہیں ہے۔ مزید کہتے خاتون پر جو بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے وہ اخلاقی نوعیت کا ہے, خاتون کی جانب سے ٹک ٹاک پر پیش کیا جانے والا غیر مناسب مواد بھی ایک اخلاقی معاملہ ہے. وہ خاتون اگر بالفرض اس روز بھی کچھ نا مناسب کر رہی تھیں تب بھی کسی ایک آدمی کو بھی یہ استحقاق حاصل نہیں تھا کہ اسکو دور سے بھی چھوئے. وہ ہجوم اخلاقاً , قانوناً اور مذہباً  صریح جرم کا مرتکب ہوا ۔ خاتون کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا  جہالت ہے. کوئی عذر  اس جرم و ظلم کو جواز فراہم نہیں کر سکتی ہے.


اقبال پارک ،یہ وہ مقام جہاں اکھٹے ہوکر ہمارے آبائواجداد اس ملک کا قرارداد منظور کیے تھے ۔ جہاں سے اللہ اکبر کے نعرے کھونجتا رہتا تھا۔ آج اسی جگہ اسی آزادی کے دن ایک بدنام زمانہ ٹک ٹوکر اپنی گندی حرکتوں سے اس جگہ کو ناپاک کرتی پھیرتی ہے ۔ نہ اس پر کوئ قانوں لاگو ہوتی ہے نہ اسے کوئ روکنے کی ہمت کرتا ہے۔ اسی دوران اسی لڑکی کے ہم پیہ نوجوان لڑکے اسی لڑکی کے جسم  کا ذائقہ چکنے اور لطف اندوز ہونے کیلئے سرپٹ دوڑتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں  تمام سکیورٹی فورسز کے اہلکار خاموش تماشائی بنی رہتی۔


 اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انکا کام  مینار پاکستان اور اردگرد کے سجاوٹ کی حفاظت تو ہے مگر اس مقام کی تقدس سے کوئ غرض نہیں۔  اور پھر ہمارے ٹی وی چینلوں میں اس واقعے کو خوب اچھالا جاتا ہے۔ اس لڑکی سے دن میں دو تین بار مختلف چینلز کے اسکرین میں دکھائی جاتی ہے۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں کہ  اس سے پاکستان کے کتنی بدنامی ہوتی ہے ۔ انفرادی مقبولیت کے خاطر قومی شناخت کو پیچھے روندے چلے جاتے ہیں۔ 


سوال یہ ہے کہ آخر ایسی واقعہ پیش کیوں ائ ۔ کیوں ہزاروں کے  مجمع میں کوئ ایک شخض نھی نہیں تھا کہ انہیں روک سکے پولیس ان کے خلاف بروقت کاروائی کیوں نہ کرسکا۔وجہ کیا ہے ایسے حالات میں کہاں جاتی ہماری غیرت و ایمان۔ کیونکہ ہم اندر سے ایسے ہی ہیں ہمیں جھنجوڑنے والا ضمیر مر چکی ہے ۔ تہذیب کے  ہم ایسے اسٹیج میں کھڑے ہیں جہاں ہمارے پاس برائی ،اچھائی، عزت، آبرو، نیک نامی اور بدنامی کے کوئی پیمانہ نہیں جس کے روبرو لا کے برائی اور اچھائی میں  تمیز کرسکے۔ ہم مخالف  سمت جانے والی دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ 


 ہمیں ان تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کو مکمل طور پر اپنانا ہوگا۔ اس کو اپنے قانوں میں واضاحت کے ساتھ ذکر کرنا ہوگا اور لاءانفورسمنٹ ایجنسی اس کو مکمل لاگو کر عوام الناس کو اس بارے میں آگاہی دینی ہوگی تب جا کے ایک ایسے واقعات پر قابو پاسکتے ہیں۔ 


وماعلیناالاالبلاغ۔


شیئر کریں: