Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان -”میر گلزار ایک نابعہ روزگار” – محمد جاوید حیات

شیئر کریں:


میر گل زار اس کارزار ہستی کی ایک ایسی شخصیت تھی جس کا متبادل کوئی نہیں چترال کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ گاوں کھوت میں نہایت پسماندگی کے دور میں پیدا ہونے والا بچہ اگر نابعہ روزگار شخصیت بن جائے تو یہ اس کی خداداد صلاحیتیں ہی ہو سکتی ہیں یہ بچہ گلشن انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے gift تھا آپ نے پچاس کی دھائی میں موضع کھوت میں معزز قبیلے خوشیے کے ایک متمول خاندان میں آنکھ کھولی آپ کے والد خوش امیر ریاستی حکمرانوں میں رسوخ والے تھے گھرانہ کھاتا پیتا تھا البتہ علاقے میں صرف ایک پرائیمری سکول تھا اس وجہ سے تعلیم ادھوری رہ گئی۔

میر گلزار نے کچھ عرصہ پشاور اور پنجاب میں گزارے اور واپس آکر ایک سماجی کارکن کے طور پر علاقے کی خدمت کرنے لگے آپ نے جب سیاست میں قدم رکھا تو اس کو خدمت اور عبادت تصور کرنے لگا اور لوگوں میں اتنا ہردلعزیز ہوا کہ ہر الیکشن میں بازی جیتنے لگا آپ نے لوکل کونسل کے الیکشن میں مسلم لیگ کی طرف سے حصہ لیا اور اخر دم تک مسلم لیگ کے ساتھ رہا آپ لوکل کونسل کے چیرمین منتخب ہوئے اور علاقے میں چیرمین نام سے مشہور ہوئے۔۔آپ ایک کامیاب کنٹریکٹر تھے اور بڑے بڑے projects آپ کی زیر نگرانی اور ٹھیکے سے مکمل ہوئے۔آپ بہت دیدہ زیب شخصیت کے مالک تھے حلیم الطبع شریف ہمدرد غریب پرور اور خدمتگار تھے آپ کے پاس اخلاق حسنہ تھا کوئی آپ سے ناراض نہیں تھا دوست دشمن آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے غریبوں کے مونس تھے امن پسند تھے علاقے کے چھوٹے موٹے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے۔

لوگوں کا آپ پر اعتماد تھا ہر ایک کی غمی خوشی میں شریک رہتے نہایت خاموش طبع نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو واقع ہوئے تھے زیرک اور ذہین تھے آپ جیسے سیاسی سوچ بوجھ رکھنے والے پھر اس علاقے میں پیدا نہیں ہوگا۔میر گزار شرافت کے پتلے تھے آپ کے بچے آپ کی روایتی تربیت سے اسی طرح کردار کے مالک ہیں۔میر گلزار نے بھر پور زندگی گزاری۔احمد ندیم قسمی کہتے ہیں
اشک تھا چشم تر کے کام آیا
میں بشر تھا بشر کے کام آیا


میر گلزار نے زندگی میں بہت ساری کامیابیاں حاصل کی مگر بشر ہی رہا وہی خدمت اور غمخواری وہی شرافت و ہمدردی وہی زندہ دلی سادگی۔کبھی مقام،دولت اور شہرت نہیں جتائی۔کبھی اپنے اور غریبوں میں فاصلہ نہیں رکھا محروم مقہورو مجبور کا دست و بازو رہا۔بے سہاروں کا سہارا بے اسراوں کا اسرا اور کتنوں کے سروں پر سایبان رہا۔میر گلزار ایک عہد تھے ایک حوالہ اور ایک مثال۔۔ خود بے مثال تھے اپنے پیچھے پھر بھی مثال چھوڑ گئے۔آپ انتقال کر گئے تو لوگوں نے ان کی جسد خاکی کے ساتھ شرافت انسانیت اعلی اخلاق نرم لہجہ اور دھیمی مسکراہٹ کو بھی مٹی کے حوالہ کیا۔۔وہ نام کے گلزار تھے شرافت کے پھول کھیلا گئے۔۔اللہ اس کی قبر کو روشنیوں سے بھر دے


شیئر کریں: