Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

حضرت ابراہیمؑ کی شاندار قربانی اور اس کی حقیقت – تحریر : سردار علی سردارؔ

شیئر کریں:

حضرت ابراہیمؑ کی شاندار قربانی اور اس کی حقیقت – تحریر : سردار علی سردارؔ

“جاننا چاہئے کہ لفظ قربانی قُرب سے مشتق ہے  جس کے معنی کوئی ایسی نیکی کرنا یا فی سبیل اللہ کوئی ایسی چیز کو صرف کرنا جس کی وجہ سے مومنین کو خداوند تعالیٰ  کا مذید قرب حاصل ہوجائے”۔

 (الکواکب ) مجموعہ مقالات۔ کمال الدین علی محمد ۔ص 175

قربانی کے اس فلسفے پر اگر غور کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاکوئی بھی چیز چاہے وہ  اللہ تعالیٰ کا عزیز ہو یا نہ ہو خدا کی راہ میں قربان کرکے اس کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اس اہم نکتے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی مقدس کتاب قرآن پاک کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ اس کا بہتر حل مل سکے۔ارشادِ خداوندی ہے  لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ. (3.92)

ترجمہ:  تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے  جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ) میں خرچ نہ کرو  جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔

مزکورہ آیت سے یہ حقیقت واضح ہے کہ خداوند تعالیٰ نے  حضرت ابراہیم ؑ کو صوم و صلواۃ ، جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر اعمالِ صالحہ سے نہ آزماتے ہوئے صرف اپنے بیٹے کی قربانی سے کیوں  آزمایا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو حضرت اسماعیلؑ کے خون اور گوشت کی ضرورت تھی؟ ایسا ہر گز نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو خدائے بے نیاز نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح  ہونے سے نہیں روک دیتا  اور اس کا گوشت پوست  اور خون اپنے لئے طلب کرتا۔حقیقت ایسی نہیں ہے  کیونکہ خداوند تعالیٰ کو کسی چیز کی بھی  ضرورت نہیں ہے،وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ساری کائنات اس کی محتاج ہے۔ در اصل قربانی کے اس فلسفے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مومنین کے دل سے دنیوی اور مادی آشیاء کی چاہت  اور محبت کم کردی جائے تاکہ خداوند تعالیٰ کی پاکیزہ محبت اس میں اپنا گھر بناسکے اور اس کے دل میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح پیدا ہوجائے جیسا کہ خداوند تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ۔(22.37 )

ترجمہ: اللہ کے پاس نہ اس کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون  لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

جاننا چاہیئے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے اس شاندار قربانی میں بہت سی حقیقتیں پوشیدہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ دونوں مشاہدہء باطن اور نور، یقین کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس قربانی کی حقیقت و اصلیت کیا ہے؟ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشدِ خداوندی ہے کہ  وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ۔(6.75)

ترجمہ: اور اسی طرح ہم ابراہیم ؑکو آسمان اور زمین کی ملکوت کا مشاہدہ کراتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

ڈاکٹر عزیزاللہ نجیبؔ کا کہنا ہے کہ ” اب آپ انصاف کی نظر سے غور کریں کہ آدم سے لیکر قیامت تک اولاد آدم میں کوئی ایسا نابالغ بچہّ ہوسکتا ہے جسے اس کا باپ ذبح  کرنے کے لئے کہے اور وہ  خوشی خوشی سے نہ صرف ذبح ہونے پر راضی  ہو جائے بلکہ ایسا کرنے میں والد کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔ یہی وہ اسرار ہیں  جن کا تعلق صرف انبیاء و اولیاء سے ہے ۔ اس عمر میں بچّے تو خون اور چھری کے نام سے بھی ڈرتے ہیں مگر اسماعیلؑ خود کو ذبح ہونے کے لئے پیش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باپ اور بیٹا دونوں کو نور، یقین کی روشنی میں معلوم تھا  کہ ذبح   (میثاقِ انبیاء) کی حقیقت کیا ہے؟”۔

کتاب الہدایۃ۔ ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ۔ ص 76

مزکورہ بالا  آیت کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ حق الیقین کے بلند ترین درجے پر فائز تھے۔ انسان کی ظاہری آنکھ بہہ سکتی ہے مگر عین الیقین سے غلطی نہیں ہوتی۔ حضرت  مولا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد گرامی ہے  ” ابَصَرَ طَریقَۃُ وَ سَلَکَ سَبِلَہُ وَ عَرَفَ مَناَرَہُ وَقَطَعَ غَماَرَہُ فَھُوَ مِنَ الیقینِ عَلیَ مِثلُ ضُوءِ الشمس”۔ ترجمہ: اُس نے اللہ کا راستہ دیکھا ، اُس کی راہ پر چلا، اس کی نشانیوں کو پہچانا، اس کی دشواریوں کو عبور کیا وہ یقین کے اس  درجے پر ہے گویا وہ سورج کی روشنی میں سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

کتاب الھدایۃ، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیبؔ۔ ص 77

مولا علی  کرم اللہ وجہہ کے اس فرمان میں بہت سی حقیقتیں پوشیدہ ہیں جنہیں حقیقت کے راستے سےواقفیت رکھنے والا انسان ہی سمجھ سکتا ہے جبکہ عام لوگ ان مخفی حقائق کے ادراک سے کوسوں دور ہیں۔ ان رمزو اشاروں کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم وعرفان کی منزلوں سے آشنا ہوں۔ گویا یہ عاشق و معشوق کے درمیان عشق و محبت کی باتیں ہیں جیسا کہ عارف رومی کا کہنا ہے کہ

میانِ عاشق و معشوق رمزیست۔

کرامان کاتبین را ہم خبر نیست

ترجمہ: عاشق و معشوق کے درمیان ایک ایسا رمز بھی ہے جس سے کراماََ کاتبین بھی واقف نہیں۔

حضرت ابراہیم ؑ کی اس شاندار قربانی کی دوسری  اہم حقیقت عہدہ امامت پر فائز ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو کئی آزمائیشات کے بعد امامت کے عظیم عہدہء جلیلہ پر فائز کیا ۔ اہلِ علم کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ عہدہ امامت سے پہلے تین اہم عہدوں پر فائز تھے۔ آپ ؑ اللہ تعالیٰ کے عبدیت خاص میں شامل تھے۔ آپ ؑ کے پاس رسالت کا ایک عظیم عہدہ تھا  اور آپ ؑ ایک صاحب شریعت پیغمبر تھے۔ تیسری بات یہ کہ آپ ؑ خلت یعنی خدا کے خلیل ہونے کا شرف رکھتے تھے اس لئے حضرت ابراہیم ؑ کو ابراہیم خلیل اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ان تمام اوصاف اور خصوصیات کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ؑ کو آزمائیش کے ایک دور سے بھی گزارا جس میں کامیاب ہونے کی صورت میں امامت کی مہربانی بھی آپ ؑ کو عنایت کی گئی۔ جیسا کہ ارشاد ِ خداوندی ہے۔وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ    (2.124)

ترجمہ: اور وہ وقت یاد کرو جب کہ ابراہیم ؑ کے رب نے اس کا امتحان لیا چند کلمات سے تو اس نے انہیں پورا کردیا تو خدا نے فرمایا تو مین تمہیں سب انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ ابراہیم ؑ نے کہا اور میری اولاد میں سے بھی۔ تو خدا نے فرمایا میرا یہ عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

حضرت ابراہیمؑ کی اس قربانی کے پیچھے یہ حقیقت بھی پنہان ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کوذبح کرتے وقت ہاتھ اور پاؤں باندھے تھےاور اسماعیلؑ بار بار یہ فرماتے تھےکہ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ٘ (37.102)   

ترجمہ: بیٹے نے کہا  اے آبا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ کیجئیے انشا اللہ آپ مجھکو صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

اس آیت پر اگر غور  کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہاں نہ صرف باب اور بیٹے کے درمیان ایک رشتہ ہے بلکہ ایک پیغمبر اور اس کے ایک امتی یا مرید کے درمیان ایک عہدو پیمان ہے ۔ اگر پیغمبر اپنے  ایک امتی سے اس کی جان کا نذرانہ  بھی طلب فرمائے تو  امتی کو  اپنے آقا کی خوشنودی کی خاطر جان بھی دینے کے لئے دریغ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے ارشاد ہوتا ہے۔

  النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ۔ (33.6 )

 ترجمہ: نبی مومنوں پر خود ان کی اپنی جانوں سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔

اس حقیقت  کی ترجمانی نبی کریم ﷺ  کی اس حدیث  سے بھی  ہوتی ہے جیسا کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ لاَ یوُمِنُ اَحَدَ کُم حَتّیَ اَکُونَ اَحَبَّ اِلَیہِ مِن وَٗالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّسِ اَجمَعیِن۔ ترجمہ: تم مین کوئی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے باپ، بیٹےاور تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔    صحیح مسلم، کتاب الایمان، ص 121

حضرت ابراہیم ؑ کی اس قربانی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنے ماں باپ کی تابعداری کرنی چاہئے۔ باپ اور بیٹےکے درمیان ایک خونی اور روحانی رشتہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی باپ  یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بیٹے کو  باپ کی طرف سے  کوئی تکلیف پہنچے۔  وہ ایک شفیق  اور مہربان ہوتا ہے کہ اس کے پاؤں میں کوئی کانٹا  بھی چبے تو وہ برداشت نہیں کرتا  چہ جائیکہ اسے قربان گاہ لے جاکر اس کے گلے میں چھری چلائے۔ آیت کی نوعیت یہ بتارہی ہے کہ ہمیں بحیثیت ماں باپ اپنے بیٹے کو آیّامِ جوانی ہی سے علمی،اخلاقی، سماجی ،عقلی اور مذہبی طور پر ایسی تربیت  کرنی چاہئے کہ وہ  ماں باپ کی تابعداری کے لئے خود کو قربانی کے لئے سرِ خم تسلیم کرے. بقول شاعر 

یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

مختصر یہ کہ عیدالاضحی  ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ دنیوی چیزوں سے اپنی محبت کم کرکے اپنا تعلق  صرف اس زاتِ یکتا کے لئے مخصوص کردیا جائے۔ خدا کی اطاعت گزاری کا عملی اظہار    اس کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت سے ہی  ہوتی ہے۔گوکہ خدا کو کسی چیز کی ضرورت  نہیں ہے  اگر ہے تو اس کے بندوں کے ساتھ رحم دلی، شفقت اور مہربانی  سے پیش آنی چاہئے۔ پس خدا کے بندوں کی اس ضرورت کو پوری کرنے کے لئے ہمیں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔لہذا  یہ دن ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ عید کی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کیا جائے ۔ اور خاص طور پر ان لوگوں کو فراموش نہ کیا جائے جو معاشرے کے اندر کس  مپرسی  کی حالت میں  زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔آن کے بچّوں کے پاس عید کے موقع پر پہنے کو کپڑے نہیں ہیں۔درحقیقت اس قسم کے لوگوں کی خوشیوں میں حصّہ دار ہونا خدا کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بقولِ شاعر

  یہی ہے مذہب یہی دین و ایمان

کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان


شیئر کریں: