Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فلسفہ عیدالاضحی – تحریر: امیرجان حقانی

شیئر کریں:

فلسفہ عیدالاضحی


عیدالاضحی کا سب سے بڑا فلسفہ یہی ہے کہ اس دن اللہ رب العزت کی طرف سے اس کے بندوں کو قربانی و ایثار کا عملی طریقہ سکھلایا گیا ہے اور اس کا آغاز سیدنا ابرہیم و اسماعیل علیہماالسلام سے کیا گیا ہے اور ہمیں ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔اور اللہ کو اپنے بندے سے ظاہری و باطنی ایثار و قربانی مطلوب ہے۔


قربانی کا لفظ قربان سے ماخوذ ہے۔قربان کا مفہوم یہی ہے کہ اس کے ذریعے بندہ اللہ کا قرب تلاش کرتا ہے۔قربانی کے ذریعے ہی بندہ قُرب الہی کا طالب ہوتا ہے۔قربانی دراصل ایثارو نذر کا ایک ایسا جذبہ ہے جو عملا نظر آتا ہے۔یہ جذبہ جاہل اور عالم غرض ہر انسان دیکھ سکتا ہے۔ اللہ رب العزت کسی کے گوشت اور خون کا بھوکا یا طالب قطعا نہیں۔شان الہی تو یہ ہے کہ و ہ ھویطعم یعنی اللہ کھلاتے ہیں، ولا یُطعم یعنی کھلائے نہیں جاتے۔


قربانی کے ذریعے اللہ حضرت انسان کو یہ سکھلانا چاہتے ہیں کہ تم اللہ کے حضور اس طرح قربان ہوجاو، یہ بھی دراصل تمہارا ہی قربان ہونا ہے جو آپ اپنا قیمتی جانور قربان کردیتے ہیں۔قربانی کا ظاہر ی فلسفہ یہ ہے کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو امتحان میں پورا اترتے دیکھ کر، اسماعیل ؑ کی جگہ دنبہ کو ذبح کروا دیا اور پھر امت محمدیہ ﷺ کو بھی سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنے کا امر کرکے، جانور قربان کرنے کا حکم دیا۔یہ قربانی کی ظاہری صورت ہے۔ جبکہ قربانی کا باطنی فلسفہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے نفس کو ذبح کیا جاتا ہے۔قربانی سے مطلوب ہی فناء نفس ہے۔ اور فناء نفس ہی قربانی کی اصل روح ہے۔اور جس قربانی میں فناء نفس نہ ہو وہ بے روح قربانی کہلائے گی یعنی قربانی ہوئی ہی نہیں۔


سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے بڑھاپے میں نرینہ اولاد سے نوازا۔پھر اللہ نے امتحان لیا جس میں باپ بیٹا کامیاب ہوئے۔عین وقت ذبح اللہ رب العزت نے سیدنا اسماعیل ؑ کی جگہ جانور لاکھڑا کردیا۔ اور اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا ”قد صدقت الرویا“ یعنی تم نے اپنے خواب کو سچا کردکھایا۔یہی قربانی کا اصل فلسفہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے نفس کو، اپنی آل اولاد کو اور اپنی مال و متاع کو اللہ کے نام پر قربان کررہا ہوں اور ہر وقت قربانی اور ایثار کے جذبے سے مملو ہو۔


قربانی ایک مستقل عبادت ہے۔ایک محبوب سنت ہے۔یہ محض ایک سنت نہیں سیدنا ابراہیم و اسماعیل اور محمدعربی ﷺ سے محبت و مودت اور عقیدت کا اعلی ترین اظہار بھی ہے۔ ہر اس مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہے۔اگر کوئی مسلمان صاحب نصاب نہ ہو اور وہ قربانی کرنا چاہیے تو اس کے لیے مستحب ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد کیا:
قربانی تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔(مسنداحمد)
قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں (ابن ماجہ)


ہجرت کے بعد آپ ﷺ نے ہر سال قربانی فرمائی ہے۔ کسی سال ترک نہیں کیا۔اور صاحب استطاعت ہونے کے باوجود ترک کرنے والوں کو سخت وعیدیں سنائی ہیں۔


خود آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو(۰۰۱) اونٹوں کی قربانی کی۔روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ذریعے یہ اونٹ یمن سے درآمد کروائے تھے۔ان اونٹوں میں ۳۶ اونٹ کو آپ ﷺ نے خود نہر فرمائے۔سیدہ فاطمہ ؓ سے فرمایا تھا کہ اپنی قربانی کے ذبح کے وقت خود کھڑی ہوجائیں تاکہ کثرت ثواب ہو۔قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ثواب ملے گا، یہی میرے آقاﷺ کا فرمان ہے۔


ٓآپ ﷺ نے اپنی اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے تو امت کو بھی چاہیے کہ اپنے پیار حبیب ﷺ کی طرف سے قربانی کرے۔
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ ایک بکرا اپنی طرف سے اللہ کے نام قربانی کرتے تھے اور ایک بکرا سردار دو عالم حضرت محمد ﷺ کی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے۔ کسی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد کیا کہ مجھے آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کروں۔ اس لیے میں ہمیشہ آ پ ﷺ کی جانب سے بکرے کی قربانی کرتا۔


خلیفہ دوئم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے خود قربانی فرمایا کرتے تھے۔آپ ﷺ سے لے آج تک مسلمان مسلسل عیدالاضحی کے تینوں ایام میں جانوروں کی قربانی کرتے آرہے ہیں۔قربانی کے حوالے سے متجددین اور معترضین کے اشکالات پر آج تک مسلم امہ نے کان نہیں دھرے۔محبوب کی سنت کے احیاء میں معترضین کے اشکالات امت کے سامنے مچھر کے پر جیسی حیثیت نہیں رکھتے۔


قربانی کے سینکڑوں معاشی فوائد بھی ہیں۔ صرف ہمارے ملک میں قربانی کے ایام میں لاکھوں لوگ حلال طریقے سے اپنی کمائی کرتے ہیں۔ کروڈوں غریبوں کو انہی قربانی کے دنوں میں جی بھر کر کھانے کو گوشت ملتا ہے۔ٹنوں کے حساب سے غرباء و فقراء میں قربانی کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔اللہ کی برکت دیکھ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ لاکھوں جانور ذبح کیے جاتے ہیں لیکن کبھی بھی حلال جانور کی مارکیٹ میں قلت پیدا نہیں ہوتی ہے۔المختصر قربانی کے فضائل بے شمار ہونے کیساتھ قربانی ایک ایسا عمل بھی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا معاش وابستہ ہے۔اللہ رب العزت ہمیں قربانی کی ظاہری و باطنی برکتیں نصیب کرے۔


یہ تحریر ریڈیوپاکستان کی ٹرانسمیشن کے لیے خصوصی لکھی گئی ہے اور ریکارڈ کروائی گئی ہے ۔

امیرجان حقانی

اسسٹنٹ پروفیسر: پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت
ریسرچ اسکالر: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
50615