Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عید قربان اور فلسفہ قربانی – تحریر :زوبیہ اسلم

شیئر کریں:

عید قربان اور فلسفہ قربانی – تحریر :زوبیہ اسلم

ہرسال اس آنے والی عید پر مومنوں کی تیاریاں عیدالفطر کی نسبت ذیادہ جوش و خروش سے بھرپور ہوتی ہیں کیوں کہ عیدالفطر تو مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے بطور تحفہ ملتی ہے جب کہ عیدالاضحیٰ مسلمانوں کی طرف سے اللہ کو بطور خاص قربانی کی شکل میں تحفہ ہے. قربانی ہے کیا؟


“مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے”
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
“فصل لربک وانحر”
ترجمہ :
“تو تم اپنے رب کے لیے نمازپڑھو اور قربانی کرو”


اس لیے صاحب استطاعت افراد (چندایک کیوں کہ اکثر مخیر ہونےکےباوجود جیبیں ڈھیلی نہیں کرتے) پر فرض ہے مگر کچھ مال و زر میں کمزور حیثیت کے باوجود شوق کے تحت اللہ کی رضاکی خاطر اس عظیم جذبے کی تکمیل کرتے ہیں. اکثر مسلمان ایسے بھی ہیں جو قربانی تو اللہ کی راہ میں کرتے ہیں مگر وہ گوشت غرباء کے پیٹ کی بجائے ریفریجریٹر کی زینت بنا رہتا ہے اور سٹوریج بھی ایسی کہ مہینوں تو استعمال ہو جاتا ہے مگر کسی ضرورت مند اور غرباء افراد کی ایک دن کے کھانے کی زینت نہیں بن پاتا، میں اس بات سے ہرگز بھی انکاری نہیں کہ قربانی کا گوشت پورے کا پورا گھر میں رکھا جا سکتا ہے مگر سنت رسول کو زندہ رکھنا پیٹ کو پالنے سے زیادہ اہم ہے.

میرے نبی کریم نے سونے سے لے کر جاگنےتک ہر چیز کا طریقہ کار عملاً پیش کیا تاکہ حقوقِ اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی ہو جائے. سنت کے مطابق قربانی کے تین حصے ہیں:ایک رشتہ داروں کا، ایک غرباء و مساکین اور ایک گھر والوں کا…. اس لیے قربانی اللہ کے لیے کرے. پیغمبر ابراہیم نے بیٹے کو قربان کر دیا اللہ کے ایک حکم پر وہ بھی اپنی پیاری چیز اپنی اولاد نرینہ. عید قربان قربانی کے لیے ہیں اس لیے وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے وہ سب سے پیاری اپنی چیز کو قربان کرے اور وہ ہے “انا اور ضد” … سب سے پہلے تو ہم اس انا اور ضدمیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جانور کی خریدوفروخت کرتے ہیں حالاں کہ دین اسلام میں نمائش کی گنجائش نہیں ہے.

اس صورت حال میں قربانی قربانی نہیں رہتی اور نہ ہی نیکی کا ذریعہ. جب کہ جانور کے خون میں ڈوبا ایک ایک بال نیکی وثواب کا وسیلہ ہے.دوسری صورت اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے عداوت ہے. یہ عداوت “میں” کے ٹیڑھے میڑھے پل سے پار دور تک پہنچ جاتی ہے کہ “میں” کی تسکین کے لیے ہر اچھا برا راستہ منتخب کر لیا جاتا ہے. انا اور ضد سے ہی ہر گناہ کی ابتدا ہوتی ہے کیوں کہ “انا” جھکنے نہیں دیتی اور “ضد” ہارنے نہیں دیتی. اسی ہار جیت کے سفر میں ہم دوسروں کے جذبات کو روندھتے چلے جاتے ہیں. اللہ کو سب سے زیادہ من پسند چیز کی قربانی پسند ہے..

اسی انا اور ضدکی بدولت ہم دوسروں کا برا سوچتے ہیں – آگے نکلنے کی چاہ میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اکارت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے..قتل و غارت محض اپنے سٹیٹس، پوزیشن کے واسطے اپنی انا کی تسکین کی خاطر.ضدمیں، جھوٹی شان وشوکت کی خواہش میں گھر کی چار ریواری کو اس قدر اونچا کرتے ہیں کہ وہ ہمسائے جن کے حقوق کی ادائیگی کی خاطر نبی کریم کو وراثت میں حصہ داری کا شبہ ہونے لگا تھا.. جن کے حقوق کی پکڑ بہت سخت ہیں ان کی تازہ ہوا چھین لیتے ہیں..

اگر ان اونچی دیواروں کو گرانے کا حوصلہ ہم میں نہیں تو کم از کم دل سے نفرت کی دیوار کو گرا دینا ہی کافی ہےکیوں کہ بے شک اللہ پاک دل کی نیت کو کافی سمجھتے ہیں. اس مقدس مہینے میں حج کی ادائیگی کے لیے بھی قربانی کی شرط عائد ہے، طواف کعبہ کرنے والے دل کو صاف کرتے ہیں کیوں کہ اللہ دل کے کینہ کی صفائی کے بغیر نہیں ملتا اور دل کا کینہ اپنی “میں” مارے بغیر نہیں صاف ہوتا.

اس لیے آئے اللہ کو جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ، انسانوں کے ساتھ بھلائی سے بھی راضی کرے، نبی کی سنت کو زندہ کرے کیوں کہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں تو معَافی کی گنجائش ہے مگر حقوق العباد کی قطعاً نہیں.اس لیے آئیے اس عید پر ایک دوسرے کے لیے، اپنی انا کوقربان کر کے نہ صرف اس سے معاشرے میں امن اور بھائی چارے کو فروغ ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ بھی راضی ہو گا اور جب اللہ راضی تو دنیاو آخرت میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔


شیئر کریں: