Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

وزیر اعظم پاکستان کا امریکہ کو دلیرانہ جواب۔۔۔۔محمدآمین:

شیئر کریں:

نئی امر یکی قیادت ا افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلاء شروع کیا ہے اور اعلانیہ کے مطابق اس سال ستمبر تک یہ انخلاء مکمل ہوجائے گی۔لیکن امریکہ کو اس سلسلے میں دو چیزوں کی نہایت فکر لاحق ہیں ایک باعزت اپنی فوجوں کی واپسی اور دوسری افغانستان میں اپنی اثرورسوخ کو قائم رکھنا،اور ان چیزون کے حوالے سے ایک دفعہ پھر انکل سام بڑی امید کے ساتھ پاکستان کو منانے کی کوشش کر رہی ہے،اور بڑی امید لگا بیھٹی ہے۔لیکن اس دفعہ شگون امریکہ کے لئے اچھا نہیں۔1951؁ء سے لیکر موجودہ دور تک سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت تک پاکستان کی خارجہ پالیسی میں امریکہ کا بڑا داخل رہا ہے۔اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور فوجوں تعاوں کے لیوریج (leverage)کا استعمال کرکے اپنی مان مانی سے بہت سے فوائد پاکستان سے حاصل کیا ہے اور ملکی خارجہ پالیسی میں بڑی حد تک مداخلت کی ہے۔لیکن اس بار پاکستان کو ایک با صلاحیت اور ایماندار لیڈر عمران خان کی صور ت میں ملا جو ملک کی خود مختاری کو کسی صورت میں بھی زنگ لگنے کی اجازت نہیں دے گا اور نہ پاکستان کی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے دے گا۔


حال ہی میں خان صاحب کی امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او کے پروگرام،،ایکزیوس،،کے میزبان صحافی جوناتھن سوان کے ساتھ ایک انٹرویو نے پوری دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے اور وزیر اعظم پاکستان کا الفاظ(Absolutely not)،،ہر گز نہیں،،تاریخی جملہ بن گیا ہے کہ پاکستان جیسی ملک میں ایک ایسا بہادر انسان ہے جو دنیا کے واحد سپر طاقت کو للکار رہا ہے۔امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی پاکستانی لیڈروں کی تاریخ شرمناک ہے میں صرف ایک مثال قارئین کے سامنے رکھوں گا۔بارہ ستمبر 2001 ء کی رات ساڑھے بارہ بجے پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو امریکہ سے کولن پاول کا فون ایا اور کہا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن کے،اس کے بعد ساتھ مطالبات پاکستان کو پیش کیا گیا۔باب ووڈ ورڈ اپنی کتاب (Bush at war)میں لکھتا ہے کہ کولن پاول نے پاکستان سے ساتھ مطالبات کیے جس کے نتیجے میں پاکستان امریکہ کے وار بیس میں تبدیل ہو گیا۔کولن پاول نے یہ بات ووڈ ورڈ (Wood ward)کو بتائی اور پھر اپنی خود نوشت میں بھی لکھا کہ جب یہ ساتھ مطالبات پاکستان کو پیش کیا تو میں یہ سمجھتا تھا کہ جنرل مشرف ان میں سے ایک یا دو منظور کر لے گا لیکن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہا جب سارے مطالبات مان لیا گیا اور مشرف نے ہر طرف امریکہ کی حمایت کا یقین دلایا۔


ایسے پس منظر رکھنے والے پاکستان سے وزیر اعظم عمران خان کو دو ٹوک الفاظ میں (absolutely not)کہہ کر مخاطب کرنا ایک جرات مندانہ اور دلیرانہ قدم ہے۔بیس جون کی اس اہم انٹرویو میں خان صاحب نے امریکی صحافی کو بتایا کہ افغانستان میں فوجی کاروائی کرنے کے لیئے پاکستان اپنی سرزمین استعمال کرنے کی جازت نہیں دے گا۔اپ نے مذید کہا کہ اس جنگ میں شریک ہوکر پاکستان نے ستر ہزار قیمتی جانین قربا ن کیا ہے اور ہم مزید اس چیز کی متحمل نہیں ہو سکتے ہیں ہم آمن میں شراکت دار ہوسکتے ہیں اور جنگ میں نہیں۔اس کے دو دن بعد واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں اس بات کی مذید وضاحت کیااور امریکی نیز عالمی برادری کے سامنے اپنی موقف کی دلیل سے تائید کی۔اور لکھا کہ ماضی میں پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے جو فیصلہ کیا تھا وہ ملکی مفاد اور عقلی دلائیل پر مشتمل نہیں تھے جس کا خمیزہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں،

ماضی میں پاکستان متحارب افغان گروپوں کے مابین انتخاب کرکے ایک غلطی کی تھی لیکن ہم نے اس تجربے سے سبق حاصل کیا ہے،ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے اور ہم کسی بھی ایسی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر یں گے جیسے افغان عوام کی حمایت حاصل ہو۔تاریخ نے ثابت کیا کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔انہون نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہمارے ملک کو افغان جنگ نے بہت نقصان پہنچایا،ستر ہزار سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے امریکہ ہمیں بیس بلین ڈالرامداد کی شکل میں مہیا کیا لیکن ہماری معاشی نقصان 150ارب ڈالر سے زیادہ ہوا،ہمارے ملک میں سیاحت اور سرمایہ کا بیڑا غرق ہوا۔امریکی کوشش میں شراکت کے بعد پاکستان کو بطور ساتھی نشانہ بنایا گیا،جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے خلاف تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپوں نے دہشت گردی کردی۔اپنے مذید لکھا کہ اس مرتبہ اگر پاکستان امریکہ کی جنگی میزبانی پر راضی ہوجاتا ہے تو پاکستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی ریڈار میں اجاتا ہے اور اس کی پاکستان متحمل ہر گز نہیں ہو سکتی ہے ہم نے پہلے ہی اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے اگر امریکہ تاریخ کی سب سے طاقتور فوجی مشنری کے ساتھ یہ جنگ جیت نہیں سکتی تو ہمارے اڈے استعمال کرکے یہ جنگ کیسے جیت سکتا ہے۔


یہ قابل قابل ذکر ہے کہ عمران خان کی یہ موقف ان کی بر سر اقتدار انے سے پہلے کا ہے وہ ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ افغان جنگ میں شرکت کرکے پاکستان نے بڑی غلطی کی ہے۔30 جون کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے فلور پر دوبارہ وزیر اعظم نے اس بات کو دہرایا کہ جب ماضی میں،میں اس چیز کی مخالفت کرتا تھا تو مخالفین مجھے طالبان خان کہتے تھے اور ابھی تاریخ نے سچ کر کے دیکھایا کہ میرا موقف صحیح تھا کیونکہ ملکی معشیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے ساتھ ہمارے ملکی سا لمیت پربھی گہرا اثر پڑاہے۔


شیئر کریں: