Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈاکو نصیب نہیں چھین سکتا۔۔۔۔۔۔۔تحریر: فیض العزیز فیض

شیئر کریں:

                                     
یہ سب سے بڑی حقیقت ہے کہ انسان رشتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جہاں کہیں رشتوں سے دکھ ملتے ہیں وہیں انسان کو ان رشتوں سے سہار ا بھی ملتا ہے ۔ رشتوں سےکنارہ کشی کرنا نا صرف اپنے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے۔زندگی کی خوبصورتی رشتوں کی بدولت ہے ۔انسان کی سب سے بڑی ضرورت انسان ہے ۔اگر انسان خوش ہوتو اس کو اپنی خوشی کو ضرب دینے کے لیے ایک انسان چاہیے ہوتا ہے اور اگر انسان غمگین ہو تو اسے اپنے غم کو تقسیم کرنے کے لیے ایک انسان چاہیے ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی کامیابی دکھانے کے لیے انسان چا ہیے ہوتا ہے ۔ انسان جب گرتا ہے تو اسے انتظار ہوتا ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑے اور اسے اٹھائے ۔ رشتوں کے بغیر انسان چل نہیں سکتا۔ ایک تحقیق کے مطابق جن لوگوں کی عمر زیادہ ہوتی ہے وہ وہ لوگ ہوتےہیں جو اپنے رشتوں کونبھاتے ہیں ۔ جس طرح انسان کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو رشتوں کو بھی ضرورت ہوتی ہے۔رشتوں کو بنانا، نبھانا اور ان کو لے کر چلنا بندہ یہ شادی سے پہلے سیکھتا ہے ۔شادی سے پہلے بہت سے رشتے بن چکے ہوتےہیں ۔

انسان آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے ماں بیٹے کا رشتہ ، باپ بیٹے کا رشتہ ، بہن بھائی کا رشتہ ، دادا دادی اور نانا نانی کا رشتہ بنتا ہے۔ جو لوگ رشتے بنانے اور نبھانے میں بیمار ہوتےہیں ان کے پاس بہتر مثالیں نہیں ہوتیں ۔ رشتے کے حوالے سے اگر کسی لڑکے کو دیکھنا ہوتو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا اپنی ماں اور بہن کے ساتھ کیسارویہ کیا ہے اسی طرح اگر لڑکی کودیکھنا ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔ بعض اوقات بہت کچھ گنوانے کے بعد پھر کچھ بچتا ہے ۔ بغیر کسی قربانی کےرشتہ نہ بنایا جاتا ہے اور نہ ہی بچایا جاتا ہے وہ قربانی پیسوں کی ہو سکتی ہے، جائیداد کی ہو سکتی ہے، وقت کی ہو سکتی ہے ۔ جن لوگوں کے رشتے نہیں بچ پاتے وہ ساری زندگی ان کوچیزوں کو بناتے رہتے ہیں جو قیمتی نہیں ہوتیں اور جو قیمتی ہوتی ہیں ان کو گنوا دیتے اور جو چیزیں بنائی ہوتی ہیں انہیں بھی چھوڑ کر چلےجاتے ہیں ۔

اگر مادی چیز وں کے حوالے سے آج معاشرے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ماں بیٹے میں جنگ چل رہی ہے ، باپ بیٹے میں جنگ چل رہی ہے، بھائی بھائی میں جنگ چل رہی ہے۔دنیا کے جتنے مقتول ہوتےہیں وہ عام لوگوں سے زیادہ ضدی ہوتےہیں وہ وقت سے پہلے اندازہ لگاتےہیں کہ میرے بھائی ساری جائید اد ہڑپ کر لیں گے لہذا وہ جائید اد کی خاطر اپنے بھائیوں سے لڑنا شرو ع کر دیتے ہیں۔خدشوں کا شکار انسان، اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرنے والا، خدا بننے والا انسان تکلیف میں چلا جاتا ہے۔ رشتوں کو جب چیزوں کے ساتھ جوڑا جائے تو پھر رشتوں کی خوبصورتی نہیں رہتی۔بچپن سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ اچھا بیٹا بننا ہے لیکن یہ کبھی بات نہیں ہوتی کہ اچھا باپ بھی بننا ہے۔ ایسا باپ بننا ہے جو ایک مثال ہو۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ پیدائشی ٹھیک ہے اس کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بندے نے کمیٹی ڈالی ہو تو وہ ہر مہینے پوچھتا ہے میری کمیٹی کب نکلنی ہے ۔

رشتے بھی کمیٹی کیطرح ہوتے ہیں کبھی کبھی انہیں بھی کھول کر دیکھنا چاہیے وہ کدھر جا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں اپنے سب سے زیادہ پرائے بننے والے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے اپنے دشمن بننے والےہیں ۔ گورا ا یک بات کرتا ہے کہ جس طرح مال کی ، خوشی کی ، غمی کی کمیٹی ہوتی ہیں اسی طرح رشتوں کی بھی کمیٹیاں ہوتی ہیں ۔ بعض اوقات انسان رشتوں کو خراب کرتے کرتے اتنا خراب کر لیتا ہے کہ پھر واپسی ممکن نہیں رہتی۔میاں بیوی کا رشتہ اختیار کا رشتہ ہوتا ہے ۔ دنیا میں یہ سب سے خوبصورت رشتہ ہے ۔ ایک حدیث کا مفہو م ہے “بہترین بیو ی وہ ہے جس سے شوہر کو سکون ملے۔آج شوہر گھر میں تھکاوٹ لے کر آتا ہے تو وہ تھکاوٹ ضرب ہو جاتی ہے ۔ عورتوں نے اپنے شوہروں کے ساتھ بات چیت کرنا نہیں سیکھا۔ بعض اوقات زبان اتنی تلخ نہیں ہوتی لیکن جو تاثرات ہوتے ہیں وہ بہت تلخ ہوتے ہیں۔غلطی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن غلطی سے نہ سیکھنا یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ زندگی کا ایک پرچہ نہیں ہے بلکہ کئی پرچے ہیں ۔ ایک پرچہ یہ ہے کہ آپ باپ کتنے اچھے ہیں۔ ایک پرچہ یہ ہے کہ آپ شوہر کتنے اچھے ہیں۔ایک پرچہ یہ ہے کہ آپ داماد کتنے اچھے ہیں۔ ایک پرچہ یہ ہے کہ آپ دوست کتنے اچھے ہیں اور ایک رشتہ یہ ہے کہ آپ بیٹے کتنے اچھے ہیں۔ ان رشتوں میں کم از کم پچاس فیصد سے زائد نمبر ہونے چاہییں تب جا کر بندہ اچھا انسان کہلانے کے لائق ہوتا ہے۔

دنیا کی تاریخ انسان کی تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے رویوں کی تاریخ ہے۔ حضرت موسی ٰ علیہ السلام ایک رویے کا نام ہے۔ فرعون ایک رویے کا نام ہے ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک رویے کا نام ہے۔ یزید ایک رو یے کا نام ہے ۔سقراط ایک رویے کا نام ہے ۔ جنا حؒ ایک رویے کا نام ہے ۔ عبدالستار ایدھی ایک رویے کانام ہے ۔ خالد بن ولی اور میرے گاؤں کے فضل الرحمن ایک روئیے کا نام ہیں. بند ہ دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کے رویے کے نشان رہ جاتےہیں ۔ جب بندہ دنیا سے جاتا ہے تو پھر لوگوں کے پاس صرف رویوں کی یاد ہوتی ہے۔ لو گ بندے کے مال ، جائیداد ، پیسے کو یاد نہیں رکھتے بلکہ وہ اس کے رویے کو یاد رکھتے ہیں ۔ انسان کے رویے کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہو رہے ہوتے ہیں اور پھر یہ ریکارڈ مثال بنتا ہے۔ ہمیں کچھ مثا لیں بنانی چاہییں اگر اچھی مثا لیں نہیں بنیں گی تو پھر کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہوگا۔ آج اچھی مثال بنیں گے تو آنے والے وقت میں تذکرہ بھی اچھا ہوگا۔ بعض اوقات کچھ رشتےتجدید کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

بعض اوقات انسان اتنا بد قسمت ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے پیاروں کے گلے لگنے کے لیے پیچھے مڑتا ہے تو اسے ٹھنڈی مٹی کی قبر ملتی ہے ۔ ہمیں والدین کے ہوتے ہوئےانہیں اپنے گلے سے لگانا چاہیے ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے ۔ یہ رشتے انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی لوٹے اور بتائے کہ “ابا” میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔تعلق توجہ مانگتا ہے اگر توجہ نہ دی جائے تو تعلق کمزور ہو جاتا ہے ۔ہمیں اس وقت سے بچنا چاہیے کہ جب ہمارے بچوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ ہمارے والدین صرف کمرشل انسان ہیں ۔ رشتے ، توجہ ، قربانی اور وقت دینے سے مضبوط ہوتے ہیں ۔سننے اور سنانے کی عادت تعلق کو مضبوط کرتی ہے ۔حدیث کا مفہو م ہے کہ ” کسی باپ کیطرف سے جو بہترین وراثت ہے وہ تربیت کی وراثت ہے ۔” اپنے بچوں کو زمین دیں، جائیداد دیں ، پیسہ دیں لیکن اللہ تعالی ٰ پر توکل اور یقین کر نا بھی سکھائیے۔ جب یہ یقین ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی ڈاکو سب کچھ چھین سکتا ہے لیکن نصیب نہیں چھین سکتا کیونکہ جس نے مجھے تخلیق کیا ہے اس نے میرے نصیب کو بھی تخلیق کیا ہے تو پھر انسان کی شخصیت متاثرکن ہو جاتی ہے ۔

پھر اس کی کمپنی سے پتا چلتا ہے کہ یہ بھرا ہوا انسان ہے اس سے کچھ نہیں چھینا جا سکتا اسے کچھ دیا بھی نہیں جا سکتا کیو نکہ اس کا وارث اس کا رب ہے۔ جس کا وارث رب ہواسے کسی اور ساتھ کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اپنے رشتوں کا نبھا بھی اپنے اللہ تعالیٰ کے لیے کرتا ہے۔سچ ہے کہ زبان نہایت ہلکی اور بے وزن شے ہے لیکن اِس سے نکلا ہوا لفظ اتنا بھاری اور خنجر کی دھار کی مانند تیز ہوتا ہے کہ اُسے بڑے بڑے سخت جان اور طاقتور پہلوان بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے فقروں کی چٹانوں کے نیچے انسانوں کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا ہے، لفظوں کی تلوار سے انسانوں کو لہو لہان ہوتے دیکھا ہے، وقت، اقتدار، دولت، شہرت، اقتدار کی قربت اور اہمیت کی خود فریبی سے لوگوں کو بدلتے اور نئے روپ دھارتے دیکھا ہے، دہائیوں اور برسوں پرانی دوستی و دیرینہ تعلقات اور خونی رشتوں کو ٹوٹتے بھی دیکھا ہے، فاصلوں کا شکار ہوتے بھی دیکھا ہے، محبت کی گرمی کو سرد مہری میں بدلتے بھی دیکھا ہے، ایک دوسرے کی آنکھوں میں بسنے والوں کو ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے بھی دیکھا ہے اور محبت کے رشتوں کو، خون کے بندھنوں کو دشمنی میں بدلتے بھی دیکھا ہے۔اس لئے دوران گفتگو الفاظ کے چناو میں حد درجہ احتیاط کو فرض سمجھنی چاہئے. آخر میں عرض کرنا چاہوں گا. کہ آپس میں معاف کرنے کا رواج جتنا بڑھے گا. ہمارے رشتے ہمارے تعلقات میں دراڑیں کھبی نہیں پڑیں گے انشاءاللہ.  


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
48936