Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ضمیر فروشی اور نظریاتی تخریب کاری…..پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

غریبوں کے نعرے لگانے والے کھرب پتی بن گئے اور امیروں اور سیاستدانوں کے نعرے لگانے والے غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے گئے۔غریب آدمی اور سیاستدانوں کا آپس کا تعلق ووٹ کی وجہ سے قائم ہے۔ اگر ووٹ کی مجبوری نہ ہوتی تو یہ اشرافیہ غریب کو کب کا ختم کر چکا ہوتا۔ نظریہ وضمیر فروشی اور سیاست کاآپس میں گہرتعلق ہے۔معاشرتی،نظریاتی اورسیاسی اقدار کی کمزوری اور اقتدار کی مضبوطی کا نتیجہ قومی بدحالی، بدکرداری، بداخلاقی، بدانتظامی، بد نیتی، بدتہذیبی اوربدمزگی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔نظریہ فروش اور ان الوقت نہ صرف اپنی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ قومی سطح نسل نو کے لیے حوصلہ شکنی کا سبب بنتے ہیں۔ایسے کردار معاشرے میں نظریاتی تخریب کاری کا موجب بنتے ہیں۔ضمیر فروشی اور نظریاتی تخریب کاری کے لیے سیاسی بارود سے بچھائی جانی والی سرنگیں ہماری نسل نو کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گی۔ ہمارے ہاں جانوروں کی قربانی کی طرح نظریات اور ضمیر کی قربانی بھی کافی مقبول ہے۔ دونوں قربانیوں میں مالے ڈالنے کے بعد گلہ کاٹنے کی گہر ی مماثلت ہے۔

جانوروں کی قربانی میں جسے مالا ڈالا جاتا ہے اس کا گلہ کاٹا جاتا ہے اور نظریاتی اور ضمیر کی قربانی میں جو مالے ڈالتا ہے الیکشن کے بعد اس کا گلہ کاٹا جاتا ہے۔ کھا ل دونوں صورتوں میں شوکت خانم بھیجی جاتی ہے۔جب امید ناامیدی میں بدل جائے، نظریات نظریہ ضرورت میں ڈھل جائیں،شباب، جوش و جنوں مفادات کی قربان گاہ کی نظر ہو جائیں تو ہم قومی مجرم بن جاتے ہیں۔ہم نوجوانان، تعلیم، نظریات، افکار، جدوجہد،میرٹ، انصاف، حق و سچ کی نام نہاد سیڑھی پر قدم جماتے ہوئے، دوسروں کے کندھوں کا سہار ا لیتے لیتے کسی فیصلہ کن مرحلے پر پہنچتے ہیں تو ہم چند عہدوں،پارٹی وابستگیوں،ذاتی مفادات اور شہرت کی بھینٹ چڑھ جاتے۔یہ نظریہ و ضمیر فروش افراد معاشرے میں میرٹ کی پامالی، مفاد پرستی، برادری ازم، پارٹی پرستی، پیر پرستی، سفارشی،سیاسی اورراشی کلچرکو تقویت دیتے ہیں۔

ضمیر بیچ کر لشکر کے ساتھ کھڑے ہونے سے بہتر ہے ضمیر بچا کر اکیلا رہا جائے۔ایسے بہروپیے سیاسی، سماجی، تعلیمی، انتظامی حتی کہ ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں۔ان میں سے سب سے قابل افسوس اور قابل رحم وہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو اپنی قابلیتوں، صلاحیتوں، اہلیتوں اوراعلی تعلیمی کارکردگی کے باوجود نوکرشاہی، سیاسی انحصار، سفارشی، راشی اور خلاف میرٹ،غیرقانونی اور غیر آئینی اقدامات کا سہارا لے کر اپنی نوکری اور ایڈجسمنٹ کے لیے خوار ہوتے ہیں۔ایسے نوجوان نہ صرف عزت نفس اور خوداری سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ اچھی نوکریاں چھوڑ کر پانچھ سال ایم ایل اے، سیاسی ٹھیکداروں، سفارشی اور راشی نمبرداروں کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں۔اکثر اس سیاسی، سفارشی اور راشی نظام سے بددل ہوکر واپس پنجاب کی گرمی میں جھلسنے کو ترجیح دیتے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو قرض لے کر نوکری کے لیے رشوت دیتے اور آسامی پر سٹے کروادیا جاتا ہے۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ہمارے نظریہ و ضمیرفروش نوجوانوں کے ذہن میں نوکری کا فلسفہ ایسے کوٹ کوٹ کر بھر دیتے ہیں کہ انہیں کوئی اور بات سمجھ ہی نہیں آتی۔سیاسی اجارہ دار طبقے نے ہمیں نوکریوں کے پیچھے لگا کر اپنے ذاتی مفادات کے لیے اس قدر استعمال کیا ہے کہ اب ہمیں نوکری کی عادت پوڈر کی طرح لگ چکی ہے اور نوکری کا جھانسہ دینے والے جی بھر کر ہمارا استعمال اور استحصال کرتے ہیں۔

ہم جدوجہد، افکار، نظریات اورشخصیات سب کچھ مفادات کی بھینٹ چڑھا دینے والے نظریہ و ضمیر فروش ہیں جو قومی اور علاقائی مفادات کی پروہ کیے بغیر اپنی جیبیں بھرنے، عہدے لینے،اقربہ کی نوکریاں لگوانے، کالے پائپ اٹھانے،سکیمیں کھانے، ٹھیکے لگوانے، تبادلے کروانے،ٹینکیاں بنوانے اورفٹ پاتھوں کے پیسے ہتھیانے تک محدود ہیں۔ہم نئی نسل کو بھی انہی اقدار، روایات،نظریہ، سوچ و افکار سے مزین کر رہے ہیں۔ہم مختصرالمعیاد مفادات کے لیے اپنی نسل کو تباہی کے دھانے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ہم جب تک ان نظریہ و ضمیرفروشوں کی تقلیدسے توبہ استغفار نہیں کر لیتے تب تک رونے دھونے، چیخنے چلانے اور ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو نظریات اور میرٹ کی وفات ہو چکی ہے۔ماضی میں تعلیم، شعور، آگاہی، سیاسی شمولیت کی کمی کواجارہ دار طبقے کی حاکمیت کا سبب قراردیا جاتا تھا۔ اب تو حالات یکسر مختلف ہیں۔ تعلیم بھی ہے، آگاہی بھی، سیاسی شمولیت کے مواقع اور سیاسی آپشنز بھی کافی ہیں۔ ماضی کی نسبت سیاسی منوپلی بھی بہت حد تک کم ہو چکی ہے۔

سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے مگر بدلے نہ بدلے ہم نہ بدلے۔شعور کا تعلق ڈگریوں سے کم ہے ورنہ ہمارے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان نوکریوں کے بجائے نظام کی بہتری کے لیے کوشاں ہوتے۔ہم نظام کو درست کرنے کی کوشش کے بجائے اس نظام کی دلدل میں پاوں اتار کر تبدیلی کے خواب دیکھنے اور دیکھانے میں مصروف ہیں۔درحقیقت ہم ہی اس ساری تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ ماضی میں خلاف میرٹ عہدے لینے والے اب خلاف میرٹ ٹکٹ ملنے پر تلملا اٹھے ہیں۔ ماضی میں لوٹا کریسی کو پروان چڑھانے والے اب چیخنے لگے ہیں۔ حضور جس بات پر نالاں ہیں اس کا راستہ بھی تو آپ ہی نے دکھایا تھا۔ پانچھ سال لوٹا استعمال کرنے کے بعد اگر کسی اور کے استعمال میں آجائے تو ہمیں بہت گراں گزرتاہے۔ اس اجارہ دار طبقے کوہم خود اپنے اوپر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ہم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ماضی کے آزمودہ ناکام افراد کو مالے ڈالتے پھولے نہیں سماتے۔ اگر اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انڈر میڑک کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا ہے، ماضی کے ناکام لوگوں کو مالے ڈال کر چند ذاتی مفادات حاصل کرنا مقصد ہے، میرٹ کو روند کر سفارشی بنیادوں پر ٹکٹ حاصل کرنے والوں کے نعرے لگانے ہیں تو پھر پڑھائی پر وقت ضائع کیوں کیا؟ان پڑھ مقامی افراد بھی دہائیوں سے یہی کرتے چلے آرہے تھے پھر ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ گیا۔

ہم نے ان سے زیادہ نئی نسل کو نقصان پہنچایا ہے۔ہم نے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ سیاسی مجاوری، موقعہ پرستی، مفاد پرستی اور چڑھتے سورج کی پوجا ہی سب کچھ ہے۔سفارش کے زریعے چند ماہ پہلے اڑن طشتری میں بیٹھ کر آنے والوں کو ٹکٹ ملنے پر حاجی و باجی زندہ باد کے نعرے لگانے والوں نے نظریات، ضمیر اور نوجوانوں کی محنت اور جدوجہد کا سودا بہت سستا کر لیا۔میرٹ کو روندھ کر، دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈال کر مسلط ہونے والوں سے میرٹ، انصاف، حق اور وفائے عہد کی امید لگانا عبس ہے۔ ہماری موجودہ روش سے سرمایہ دار، جاگیردار، نمبردار، ذیلدار، ٹھیکیدار، سیاسی مفاد پرستی، لوٹا کریسی اورموروثیت کو تقویت پہنچی ہے۔مندرجہ بالا تمام ناسوروں کے خلاف باتیں کرنے والے جب انہی کے سامنے گھٹنے ٹیک کر پارٹی فیصلے کی ڈھال کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں گے تو اس سے بڑی نظریہ و ضمیر فروشی اوربزدلی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تمام مفاد پرست جو ٹکٹ سے پہلے کسی کے خرچے پر پروگرامات کرتے تھے، کسی کے پیسوں سے اپنی جیب خرچ لیتے تھے، کسی وابستگی سے سیکموں وغیرہ کی رقوم سے اپنے گھر کا خرچہ چلاتے تھے، ٹکٹ ملتے ہی انہوں نے سیاسی قبلہ تبدیل کر دیا۔ہمیں نہ صرف ان نظریہ و ضمیر فروشوں سے ہوشیار رہنا ہے بلکہ ان کو بے نقاب بھی کرنا ہے۔ حق سچ، میرٹ اور عدل و انصاف کا ساتھ دے کر یہ ثابت کرنا ہے ملک و قوم کی بہتری نظریہ فروشی، ضمیر فروشی، سیاسی لوٹا کریسی، میرٹ کی پامالی، عوامی حقوق کی اتحصالی اور ذاتی مفادات سے نہیں بلکہ اس نظام کو بہتر بناے کی جدوجہد میں پوشیدہ ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
48828