Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تحریک انصاف کی ناانصافیاں….. پروفیسر عبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

ہر وقت انصاف کی باتیں کرنے والے عمران خان صاحب اپنی ہی جماعت میں انصاف قائم کرنے میں ناکام ہو گئے۔ دوسری جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرانے والی تحریک انصاف نے سب سے پہلے انصاف کا جنازہ نکالتے ہوئے نوجوانوں کے نام پر تحریک چلائی اور ٹکٹ نوجوانوں کے بجائے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اورمزار والوں کو دے کر تحریک انصاف کی ناانصافیوں کا آغاز کیا۔ دوسری جماعتوں کو چوروں کا ٹبر کہنے والی تحریک انصاف نے انہی کرپٹ لوگوں کو اپنی پارٹی میں پیراشوٹ کے زریعے نہ صرف اتارا بلکہ کلیدی عہدوں سے بھی نوازہ۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے سے پہلے جو لوٹے، مافیا، چور، ڈکیت، کرپٹ وغیرہ تھے پی ٹی آئی میں شامل ہوتے ہی انصاف کی گنگا میں ایسا غوطہ لگایا کے سب جرائم دھل گئے۔

پی ٹی آئی نے نظریاتی کارکنوں کو ناانصافی کی ایسی چکی میں پیسا کہ ان کی آواز تک بند کر دی۔ اس وقت پاکستان، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کو اگر انصاف کی چھلنی سے نکالا جائے سارا انصاف سوراخوں سے نکل جائے گا اور صرف ناانصافی باقی بچ جائے گی۔ دیگر پارٹیوں پر ہارس ٹریڈینگ اور بدعنوانی کے الزامات لگانے والی تحریک انصاف اپنی باری انصاف کے سارے تقاضے بھول گئی ہے۔ گلگت بلتستان الیکشن میں جمعہ جمعہ آٹھ دن سے شامل ہونے والوں کو اعلی وزارتوں سے نوازہ گیا جبکہ نظریاتی کارکن پھر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ناانصافی کا یہی سلسلہ آزادکشمیر الیکشن سے پہلے بھی جاری ہے۔ نہ پارٹی میں شمولیت، نہ نظریات، نہ وابستگی، نہ پارٹی عہدہ، نہ کوئی کام، بس بنی گالہ کا سفر کیا، مالے ڈالے، ٹکٹ تھمائے اور رخصت کر دیے گے۔ جو لوگ تحریک انصاف سے انصاف اور بہتری کی امید لگائے ہوئے ہیں وہ ایک بار پی ٹی آئی کی اقتدار سے پہلے اور بعدکے بیانات اور تقاریر کا مطالعہ کر لیں اور پی ٹی آئی کا ماضی کی دیگر جماعتوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر ووٹ دیں ایسا نہ ہو کہ انصاف کے پر چم لہرانے والے انصاف کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔

وکیل کشمیر نے مسلم لیگ ن کے وزراء کو ٹرک بھر کر پی ٹی آئی میں شامل کر لیا تو حضور والا کیا یہ ہارس ٹریڈینگ نہیں ہے؟ یہ لوٹا کریسی نہیں ہے؟ یہ بدعنوانی اور مافیا پر ستی نہیں ہے؟تحریک انصاف کی ناانصافی کا اندازہ اس بات سے لگائیں گے جو لوگ ماضی میں دہائیوں مقتدر رہے اور کوئی کارکردگی نہ ہونے کے باوجود انہیں نہ صرف عہدوں سے نوازہ گیا بلکہ ٹکٹ جیب میں ڈال کر تھپکی بھی دی جاو حلقے میں۔ نوجوانوں سے نعرے لگوا کر، ان سے حلقے میں محنت کروا کر ان کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے والی تحریک انصاف نے نوجوانوں کو دیوار کے ساتھ لگا کر ماضی کے مافیا اور پاک پتن طرز کی سلیکشن کی ہے۔ آزادکشمیر میں بھی نظریاتی کارکنان کو دیوار کے ساتھ لگا کر موقعہ پرست، مفاد پرست، پیر پرست، پارٹی پلٹ اور ماضی کے ناکام لوگوں کو ٹکٹوں سے نوازہ گیا۔ ضلع نیلم میں پی ٹی آئی کے لیے دن رات ایک کرنے والے نظریاتی کارکنان کے بجائے ایک طر ف حاجی اور دوسری طرف باجی کو ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ حاجی صاحب دہائیوں حکومت کا حصہ رہ کر کچھ نہیں کر پائے اب اس عمر میں انہیں دوہفتوں بعد کچھ یاد ہی نہیں رہتا کہ کون ملا تھا کون نہیں تو ان سے ترقی اور تبدیلی کی امید لگانا عبس ہے۔ دوسری جانب پیراشوٹ کی زریعے آنے، جمعہ جمعہ آٹھ دن لگانے، مریدوں سے کال کروانے، تعویز دھاگہ اور دم کروانے والے منتخب کر لیے گے۔ تحریک انصاف کی اعلی قیادت ضلع نیلم کے دونوں حلقوں کے سیاسی جغرافیہ سے نابلد دکھائی دیتی ہے۔

نیلم کی سیاست میں پیری مریدی کے زریعے ووٹ ملنے کا اثر عرصہ دراز سے زائل ہو چکا ہے۔اگر نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ محنت، جدوجہد، نظریاتی، پارٹی وابستگی یا میرٹ پر ٹکٹ ملتے ہیں تو جناب والا میاں عبدالقدوس اسحاقی صاحب، پیر مظہر سعید شاہ صاحب، راجہ الیاس صاحب، قاضی اسرائیل صاحب، صداقت شاہ صاحب، شوکت جاوید میر صاحب، عطا پیرزادہ صاحب، عبید پیرزادہ صاحب، اشفاق پیرزادہ صاحب اور دیگر شخصیات کے ساتھ ہونے والی سیاسی ناانصافیوں سے سبق سکیھیں۔ نچلے حلقے کی سادات برادری ٹکٹ نہ ملنے کی پاداش میں یقینا پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دے گی۔ سادات پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان تو شائد نہ کریں مگر وہ یا تو کسی آزادامیدوار کو کھڑا کر کے ووٹ اسے دیں گے یااندرونی سطح پر کسی اور پارٹی یا امیدوار سے ڈیل کر سکتے ہیں۔یہی صورتحال راجہ،خواجہ میر، پیر اور ر قاضی صاحب کی جانب سے متوقع ہے۔ دیگر خاندان بھی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں۔ چوہدری فیملی ن لیگ، پی پی اور ثمر سراج میں تقسیم ہے۔

پیرزادہ فیملی تحریک لبیک، مسلم کانفرنس، ن لیگ میں تقسیم ہے۔ اس بارپیرزادہ فیملی کے پروفیسرغلام مصطفی شاہ صاحب تحریک لبیک اور لطیف الرحمان آفاقی لبریشن لیگ کے ٹکٹ سے امیدوار ہیں۔ پیر مظہر سعید شاہ مسلم کانفرنس سے وابستہ ہیں۔انہیں ٹکٹ جاری نہ کر کے مسلم کانفرنس نے اپنے پاوں پر کلہاڑامارا ہے۔ اب یا تو وہ آزاد الیکشن لڑیں یا پھر پارٹی میں رہیں یا اپنا ووٹ کسی کے پلڑے میں ڈالیں یہ مستقبل بتائے گا۔ تاہم پیر مظہر سعید شاہ صاحب کو مشورہ ہے ایک سوراخ سے دو بار ڈسنے والا عقلمند نہیں ہوتا اور علماء و مشائخ یا ٹیکنو کریٹ کے لولی پاپ کو چکھنے سے اجتناب کریں ویسے بھی پیر صاحب کی کونسی لولی پاپ والی عمر ہے۔ ابھی مزید نوجوانان بھی مختلف پارٹیوں سے میدان میں اترنے والے ہیں ہو سکتا ہے کچھ پی ٹی آئی کے دلبرداشتہ نظریاتی بھی ہوں۔تحریک انصاف نے پڑھے لکھے نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے روئیتی جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور پیر پرستانہ سیاست کو فروغ دے کر بدترین ناانصافی کی ہے۔ تحریک انصاف نے نوجوان کارکنان کی اکثریت نظریات کے بجائے اندھی تقلید کی قائل ہے۔پارٹی پرستی میں وہ انصاف، حق اور سچ بھول کر موقعہ پرستی کو ترجیح دیتے ہیں۔

نوجوانوں کے نعرے لگانے، ان کے حقوق کی گردان الاپنے والے اور تبدیلی کے شیدائی پارٹی ڈکٹیٹرشب کے آگے دم ہلاتے نظر آرہے ہیں۔ جب بابا جی کا ہاتھ تھمایا گیا تو نوجوانوں اور تبدیلی کے جھوٹے علمبردار بھاگ کر استقبال کرنے آئے۔ ایسے موقعہ و مفاد پرستوں سے کسی تبدیلی کی امید نہیں ہے جو معمولی عہدوں کے لیے نظریات بیچ دیں، افکار بیچ دیں، سوچ بیچ دیں، جدوجہد بیچ دیں، نام بیچ دیں، تعلیم بیچ دیں سب کچھ بیچ دیں۔ پی ٹی آئی کے غلط فیصلوں کا فائدہ یقینا دیگر پارٹیوں کو ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی پی اور ن لیگ بیک ڈورسے پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوئی ہیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم سے ان کا ووٹر بھی تقسیم ہو چکا ہے۔اپر حلقے میں ن لیگ، پی پی، مسلم کانفرنس،آزادامیدواران، لبریشن لیگ، یونائیٹید مومنٹ، جماعت اسلامی وغیر ہ کا ووٹ مائنس کریں تو پی ٹی آئی کے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے۔اب بس کرونا کا آسرا ہے۔ ڈسکہ کے پی کے، وزیر آباداورکراچی پی ٹی آئی کو کرونا نظر نہیں آیا،اب الیکشن ہارنے کے ڈر سے آزادکشمیر میں کرونا کی وجہ سے الیکشن ملتوی کروانے کی کو شش کی جا رہی ہے۔

تحریک انصاف بذات خود کسی کرونا سے کم نہیں ہے زرا پاکستانیوں سے پوچھیں لوگ پی ٹی آئی سے پناہ مانگتے ہیں۔ٹکٹ تو دے دیے مگر تیاری نہیں ہے پھر ایسے میں کرونا ہی سہارا ہے۔ م سے ن پ سے ش کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے۔راجہ فاروق حیدر خان صاحب بھی پی ٹی آئی کو بلاوجہ کوس رہے ہیں۔ ن لیگ کے لیے کون سے جاتی عمرہ سے ٹرک بھر کر لائے گئے تھے راجہ جی مسلم کانفرنس اور پی پی کو توڑ کر مسلم لیگ ن بنائی تھی کیا وہ سب بھول گئے ہیں؟ایک سال پہلے عرض کی تھی ٹکٹ ملتے ہی پی ٹی آئی تقسیم ہو جائے گی اب حقیقت سے آنکھیں نہ چرائیں اور دیکھتے جائیں۔ دونوں حلقوں سے تحریک انصاف کی ناانصافیوں کی وجہ سے پارٹی کے اندر نہ صرف گروہ بندی کا آغاز ہو چکا ہے بلکہ پی ٹی آئی کا ووٹر بھی دیگر آپشن کی طرف توجہ دینے لگا ہے۔

ن لیگ اور پی پی اس موقعہ سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گی۔ تحریک لبیک کے ٹکٹوں کا فیصلہ بھی ابھی ہونا باقی ہے ہو سکتا ہے کوئی لبیک کے ساتھ مل جائے۔ نچلے حلقے سے مسلم کانفرنس نے بھی ٹکٹ جاری نہیں کیا ہو سکتا ہے کوئی گوٹی ادھر بھی فٹ ہو جائے۔ چند دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیاں بھی یقینا ایک آپشن ہیں۔ جن کو اپنے ووٹوں کا زیادہ یقین ہو گا وہ آزاد الیکشن لڑلے گا۔ اگر میرے نظریہ نیلم متحدہ لائنس پر توجہ دی جائے تو تحریک لبیک، مسلم کانفرنس ناراض گروپ، پی ٹی آئی نالاں گروپس، لبریشن لیگ، یونائیٹیڈ مومنٹ،پبلک رائٹس پارٹی، برابر پارٹی، عام آدمی پارٹی، جے یو آئی، اور آزاد امیدواران ملکر ایک مشترکہ متفقہ امیدوار میدان میں اتاریں تو بڑے برج دھڑام سے گریں گے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
48735