Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

او آئی سی،اقوام متحدہ،سلامتی کونسل اور عالمی برداری اسرائیلی بربریت روکنے میں ناکام۔قادر خان یوسفزئی

شیئر کریں:

57 مسلم اکثریتی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے فلسطین کی صورت حال پر وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیلی حملوں اور موجودہ حالات کا جائزہ لے کر روایتی مذمتی قرارداد منظور کرتے ہوئے معاملے کو نمٹا دیا۔ حالیہ کشیدگی اس وقت بڑھی جب مشرقی یروشلم میں اسرائیلی فوجیوں نے کئی فلسطینی خاندانوں کو  زبردستی گھروں سے نکال دیا تھا، ، افسوس ناک حد تک مسلم اکثریتی ممالک مسلم امہ کو دنیا بھر میں درپیش مسائل کا حل نکالنے میں مصلحت، ذاتی مفادات و تجارتی ترجیحات سمیت اسرائیل و امریکہ کے خوف کا شکار نظر آتے ہیں۔ واضح رہے کہ خدشہ ہے کہ غزہ میں تیسرے انتفادہ یا فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے۔ پہلی تحریک 1987 سے 1993 تک جاری رہی جبکہ دوسری مزاحمتی تحریک کا آغاز 2000 میں ہوا اور یہ قریب پانچ سال تک جاری رہی۔

اسلامی تعاون تنظیم،اسرائیل کو دباؤ میں لانے کے لئے متفقہ طور پر اقتصادی بائیکاٹ یا کسی بھی قابل عمل ردعمل کا اعلان  کرسکتی تھی لیکن صرف ایک رسمی بیان جاری کرکے کہ”القدس الشریف اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت مسلم امہ کے لئے ریڈ لائن کی سی ہے“، کوئی بھی مسلم ملک اپنی دینی، اخلاقی و انسانی ذمے داری سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسرائیل یہودیوں کی آبادکاری کے منصوبے پر دنیا کی پرواہ کئے بغیر عمل پیرا ہے اور اس غاصبانہ کاروائیوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔اب تک کے اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی بچوں سمیت بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جب کہ70ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ، اسرائیلی رعونت کا اندازہ اس اَمر سے بھی لگایا جاسکتا ہے، کہ جارحیت پسند اسرائیل نے میڈیا ہاؤسز و رہائشی عمارت کو بھی میزائلوں سے نشانہ بنا کر منہدم کردیا، اے پی کے مطابق انہیں عمارتیں خالی کرنے کے لئے صرف ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا، اسرائیلی فوج نے خان یونس کے علاقے میں حماس کے سیاسی ونگ کے رہنما یحییٰ السنوار کے گھر کو مسمار کیا۔ اسرائیل اس وقت مشرق وسطیٰ میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے، اس کے اقدامات سے خطے سمیت پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہواہے۔


امریکہ نے اسرائیلی جارحیت کی ہمیشہ پشت پناہی کی ہے جس کی وجہ سے خود سر لے پالک نے مشرق وسطیٰ میں امن و سکون کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، اسرائیلی شر انگیزیوں کی وجہ سے خطے میں کوئی مملکت محفوظ نہیں،اسرائیل کے ساتھ اتحاد و دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے مسلم اکثریتی ممالک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اسرائیلی بربریت کا وحشت ناک کھیل دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل مخالف تنظیم حماس ایٹمی قوت کا مقابلہ روایتی طریقوں سے کررہی ہے لیکن اس وقت فلسطین کو مسلم امہ و عالمی برادری کی سخت ضرورت ہے تاکہ بے گناہ عوام پر ونے والے مظالم کو روکا جاسکے۔حماس و اسرائیل کی لڑائی تیسرے ہفتے میں داخل ہورہی ہے، اسرائیل عالمی برداری کو گمراہ کرنے کے لئے بیان دیتا ہے کہ IDF کے لڑاکا طیارے غزہ کی پٹی میں ’دہشت گردی‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے جواب میں غزہ سے شروع کئے گئے راکٹ حملوں نے اسرائیل کے جنوبی شہر بیر سیہ اور اشکلون کو نشانہ بنایا تھا، عالمی انسانی حقوق کے ادارے رپورٹرز وڈ آؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف) نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکوٹر فتوؤ بینسودا سے میڈیا کو نشانہ بنائے جانے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے،

واضح رہے کہ اسرائیلی فضائی حملے میں رہائشی عمارت میں قائم غزہ کے ایسوسی ایڈ پریس (اے پی) الجزیرہ سمیت کئی میڈیا ہاؤسز کے دفاتر تھے۔آر ایس ایف کے سیکرٹری جنرل کرسٹوف ڈیلور کا کہنا تھا کہ”جان بوجھ کر ذرائع ابلاغ کو نشانہ بنانا ایک جنگی جرم ہے، اے پی ایڈیٹر سیلی بزبی کے مطابق ایک دہائی سے ان کے دفاتر ان عمارتوں میں قائم تھے اور اسرائیل نے انہیں کبھی نہیں بتایا کہ حماس یا اس کے انٹیلی جنس فورس ان عمارتوں میں موجود ہے، انہوں نے اسرائیل فضائی حملوں میں میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنانے و رہائشی عمارتوں کو مہندم کئے جانے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا “۔  اسرائیل کا واضح مقصد تھا کہ کہ میڈیا کوریج کو روکا جائے اور دنیا کو اسرائیلی جارحیت سے آگاہ نہ ہونے دیا جائے، دوران جنگ یہ عالمی قانون ہے کہ شہری آبادی کو کسی صورت نشانہ نہیں بنایا جائے گا، لیکن اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے براہ راست شہری آبادی پر فضائی حملے کئے، جس کے مناظر دنیا بھر میں دیکھے گئے۔اسرائیلی وزیراعظم میڈیا کے خلاف ہونے والی کاروائی کا بھونڈا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حماس ان عمارتوں کو فوجی کاروائیوں کے لئے استعمال کررہی تھی۔ امریکہ کے صدر بائیڈن ’پائیدار سکون‘ کے نام پر اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے، مسلمانوں کے مذہبی تہوار کے دن بھی فلسطینیوں کو نشانہ بنانا صہونیت کی فسطائیت کی سوچ کو مزید آشکارہ کرتی ہے۔


 قابل افسوس کردار امریکہ کا اُس وقت سامنے آیا جب سلامتی کونسل کے تیسرے ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کردیا، اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکہ کا شکریہ ادا کیا، ایک جانب امریکہ حملوں کو اسرائیل کا دفاعی حق قرار دیتا ہے تو دوسری جانب فلسطین پر ڈھائی جانے والی قیامت پر افسوس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ سلامتی کونسل میں تسلیم کیا گیا کہ اسرائیل کی کاروائیاں غیر قانونی ہیں اور مہلک طاقت کے غیر مناسب سخت استعمال سے انسانی حقوق کا استحصال ہوا ہے، اسرائیل پر سلامتی کونسل کا دباؤ بڑھنے کی امید تھی لیکن امریکہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے میں تامل نہیں برتا، امریکہ اپنے اس عمل سے اپنے خلاف نفرتو ں کو فروغ ہی دیتا آیاہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا ڈر رہتا ہے۔

چین نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرت کی میزبانی کی بھی پیش کش کی۔ تاہم یہاں اُن مسلم اکثریتی ممالک کا کردار مایوس کن نظر آتا ہے جنہوں نے اپنے مفادات کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرتے ہوئے فلسطینوں کے حقوق کے دفاع کا بھی ذکر کیا تھا، لیکن ان کے مجرمانہ خاموشی ثابت کررہی ہے کہ انہیں فلسطینیوں سے زیادہ اپنے فروعی مفادات  زیادہ عزیز ہیں۔IDF کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں 3100 راکٹوں سے اسرائیل کو نشانہ بنایا گیا، آئی ڈی ایف کے مطابق انہیں ملکی تاریخ میں راکٹ فائر کے سب سے زیادہ روزانہ حملوں کا سامنا ہے۔ان حملوں میں آٹھ اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، اسرائیلی فوج کے مطابق انہوں نے اپنے جدید سیکورٹی سسٹم کی وجہ سے ایک ہزار راکٹوں کو روک لیا تھا جب کہ450 راکٹ غزہ کی پٹی میں گرے۔ راکٹ حملوں نے اسرائیل کے جدید ترین نظام کو متاثر کیا، راکٹوں حملے ہونے کی صورت میں اسرائیلیوں کے پاس صرف 15سے 90 سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے او ر اس کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ وہ غزہ کی پٹی سے کتنے دور ہوتے ہیں، جب سائرن بجنے شروع ہوجاتے ہیں۔  اقوام متحدہ میں امریکی سفیر تھامس گرین فیلڈ نے حماس سے راکٹ حملوں اور اشتعال انگیزیوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ”اشتعال انگیز، پرتشدد حملوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ انخلاء سے بھی باز رہیں، جن میں مشرقی یروشلم، انہدام اور 1967 کی لائنوں کے مشرق میں آباد کاری کی تعمیر بھی شامل ہے۔”امریکی خصوصی ایلچی ہادی امر  بھی اسرائیلی اور فلسطینی عہدیداروں سے بات چیت کے لئے اسرائیل پہنچے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی مصری وزیر خارجہ سمہ شوکری سے بات کی، جو فائر بندی کے لئے ثالثی کر رہے ہیں۔


اسرائیلی حملوں و جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے کئے، لیکن ان مظاہروں کے خلاف بھی کاروائیاں کی جارہی ہیں۔ برطانیہ کی پولیس فلسطینیوں کے مظاہرے میں اسرائیل مخالف نعروں کے خلاف سوشل میڈیا میں زیر گرش فوٹیج کی مدد سے قانونی کاروائیوں کے لئے پوچھ گچھ شروع کرچکی ہے۔ برطانیہ میں موجود یہودیوں کے خلاف فلسطین حامیوں کی جانب سے مظاہرے پر برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے برطانیہ کے یہودیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام قراردادوں پر حقیقت میں پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوا – خاص طور پر جب فلسطینیوں کو اپنی ریاست خود بنانے کا حق آتا ہے۔اسرائیل حالیہ کشیدگی کو جائیداد کے تنازع میں تبدیل کرنے کے لئے اپنی جارحیت کو درست قرار دیتا ہے۔اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر گیلڈ اردن نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ حماس سیاسی اقتدار کے حصول کے لئے اسرائیل پر بڑے پیمانے پر حملے کررہی ہے،

ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی اٹھارٹی کے صدر محمود عباس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کی وجہ سے عسکریت پسند گروپ میں کشیدگی بڑھی۔فلسطینی اٹھارٹی نے امریکہ سے مداخلت کی اپیل کی تھی جب کہ وزیر خارجہ ریاض الملکی نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لوگوں، گھروں، سرزمین پر جارحیت اور حملہ ختم کرنے کے لئے ابھی اپنا کردار ادا کریں، انہوں نے امریکہ پر نسل پرستی کا سنگین الزام بھی عاید کیا۔ مسلم اکثریتی ممالک روایتی رسمی طور پر اسرائیل کے ناجائز اقدامات کی مذمت و کررہے ہیں لیکن یہ فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں بن سکتے۔ انسانی حقوق کے علمبرادر ممالک سمیت مسلم اکثریتی ممالک کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق یہودی غیر قانونی آباد کاری کو روکنے اور دو ریاستی حل کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسرائیل کے خلاف عرب ممالک میں آج بھی اتنی جنگی قوت نہیں کہ وہ بزور طاقت اسرائیل کو جارحیت سے روک سکیں، لیکن اقتصادی ہتھیار استعمال کرکے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے پیمانوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لئے انہیں فروعی مفادات سے باہر نکل کر اجتماعیت کی جانب آنا ہوگا اور مسلم امہ کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لئے امت واحدہ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔


شیئر کریں: