Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پیغامِ عیدالفطر…….تحریر سردار علی سردارؔ

شیئر کریں:

آج پوری دنیا خصوصاََ عالمِ اسلام کے تمام مکاتب فکر کے لئے نہایت خوشی اور مسرت کا دن ہے کہ خداوند تعالیٰ نے کرم نوازش فرماکر عیدالفطر کا یہ مبارک دن انہیں عنایت کیا ہے جس کے اظہار کے لیے امتِ مسلمہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکراور دو رکعت واجب نماز ادا کرکے اس کی نعمتوں اور مہربانیوں  کا شکرانہ ادا کرتی ہے۔

گویا عیدالفطر جو مسلمانوں کی مذہبی خوشی کا تہوار ہے کو معاشرے کے تمام مسلم طبقات اپنے اپنے طریقے سے مناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺخود اپنی امت کو عید کے دن مختلف مشاغل میں شرکت کی ہدایت کی ہے ۔ پروفیسر رفیع اللہ شہاب “اسلامی تہوار اور رسومات” میں رقمطراز ہیں کہ حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں عیدالفطر بہت ہی عزت واحترام کے ساتھ شہر سے باہر عید گاہ میں ادا کی جاتی تھی جس میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ کثرت سے شرکت کرتے تھے۔ آپ ﷺاس عید کو سادگی کے ساتھ مناتے اور خود پیدل چل کر عید گاہ پہنچتے۔ آپ ﷺ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی پیدل چل کر عید گاہ پہنچتے تھے۔ اس موقع پر آپ ﷺ ہمیشہ ایسا لباس زیب تن فرماتے جسے ہر فرد معاشرہ خرید سکتا تھا”۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے قول و فعل اور فکرو سعی  سے اپنے اندر طہارت اور پرہیز گاری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سادگی کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیئے ۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ سال کے تین سو پیینسٹھ دنوں میں  اپنے وجود کو برائیوں سے پاک رکھا جائےاور شیطان کے بہکاوے سے اپنے آپ کو بچایا جائےلیکن رمضان کا یہ مقدس مہینہ اہلِ ایمان کے لئے اور بھی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے لئے ایک لمحے کو بھی ضائع نہ کیا جائے۔ماہِ رمضان میں خداوندتعالیٰ اپنے  خاص بندوں کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ اپنے سے کم زور، غریب اور بے یارو مددگار انسانوں کی حاجت روائی کریں اور یہ اس وقت ممکن ہے جب  انسان خود بھوکا پیاسا رہے تب اسے دوسرے انسانوں کی بھوک اور پیاس پر ترس آئے گا۔ اس احساسِ ذمہ داری کانام صوم کہلاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو خالی بھوکےاور پیاسا رہنے سے روزہ کی حقیقت بے مقصد رہے گی۔مولانا عبدلعلی  محمد نے اپنی کتاب ارکان اسلام میں نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کَم مِن صاَئمِِ لیَسَ مِن صیِامہِ اِلاّلجُوع وَالعطَش۔

ترجمہ: بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

اس حدیثِ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ روزہ اہل ایمان کے اندر طمانیت قلبی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے بےسہارہ انسانوں کی تکلیف کو سمجھنے کا احساس پیدا کرنے کا نام ہے۔تفسیر نمونہ  میں سید صفدر حسین نجفی نے  حضور ﷺ کی ایک حدیث نقل کی ہے۔ آپ صلعم   فرماتے ہیں کہ” اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی برکت ، بخشش اور رحمت کا مہینہ تمہاری جانب آرہا ہے۔ غریبوں اور محتاجوں پر احسان کرو۔ اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو اور چھوٹوں پر مہربانی کرو، رشتہ داری کے ناتوں کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہ سے روکے رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے بند رکھو جن کا دیکھنا مناسب نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزون کے سننے سے روکے رکھو جن کا سننا مناسب نہیں، یتیموں  پر شفقت و مہربانی کرو”۔

عیدالفطر کا یہ مبارک دن ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے  کہ ہم یہ جان لیں  کہ روزے کے کئی مقاصد میں سے ایک بنیادی مقصد  دوسروں کی تکلیف ، بھوک اور پیاس کا احساس کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ نیز یہ بھی جان لیں  کہ  انسانی معاشرے میں ہر انسان کی ایک عزت اور قدر ہے ۔ ہمیں انسانیت کی قدر کرتے ہوئے خود کو انسانیت کا فیملی ممبر تصْور کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ الخلقُ عیالُ اللہ۔ مخلوق سارے اللہ کے عیال ہیں۔ اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہے کہ ہم سب اللہ کے کنبے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایک آدم کی اولاد ہیں۔ ایک ہی زمین پر پیدا ہوئے ہیں۔ ہم تمام کے ایک جیسے اعضائے بدن ہیں۔ اگر بدن کے کسی حصّے میں کوئی درد ہو تو پورا بدن اس درد کو سہتا ہے اور اس کی تکلیف میں برابر  شریک ہوتا ہے۔جیسا کہ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں۔

بنی آدم اعضائے یک دیگراند             کہ در افرینش ز یک جوہراند

چو عضوی بدرد آورد روزگار                    دیگر عضوہا را نماند قرار

تو کز محنت ِ دیگران بی غمی                            نشاید کہ نامت نہند آدمی

اگر انسانی جسم کے کسی عضو  میں درد  ہوتا ہے تو جسم کے سارے اعضا ء بےقرار ہوجاتے ہیں  اسطرح بنی آدم از روئے خلقت ایک ہی جوہر سے ہیں اُ ن کی اصلیت ایک ہی جوہر سے ہے۔اگر تو دوسروں کے دکھ درد سے لاپرواہ ہے تو پھر تو انسانیت کے زمرے سے بہت دور ہے تو تجھے انسان نہیں کہا جاسکتا اور نا تو اس قابل رہا کہ تجھے اولادِ آدم کہا جائے۔

 آج پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا میں مبتلا ہے جس میں کثرت کے ساتھ مسلمان ممالک بھی شامل ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں تمام انسانوں کے دکھ درد اور تکلیف میں ان کی مدد کرنا ، بے سہاروں کا سہارا بننا اور ان کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنا ہی اصل عید ہے۔ عید کے معنی خوشی کے ہوتے ہیں اور یہ خوشی اس وقت ملتی ہے کہ اپنی خوشی میں ناتوان انسانوں کو بھی شامل کیا جائے ۔ اپنے اندر سادگی، نظم وضبط اور اعلیٰ اخلاقی اصول پیدا کرتے ہوئےدوسروں کو محبت اور امن بھائی چارے کی تعلیم دیتے ہوئے انہیں رواداری، احترامِ انسانیت ، عفودرگزر ، باہمی تعاون  اور ہمدردی کی تعلیم دی جائے۔

یہ وہ اعلیٰ زرین اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر خدا کی رضا حاصل کی جاسکتی ہے۔ دین ِ اسلام کی تعلیمات کا محور ہی اپنے سے کمزور اور ناتواں انسانوں کی خبر گیری کرنا ہے ۔ معاشرے میں ہردور میں یتیم، مساکین ،فقراءاور حاجت مند پائے جاتےہیں اور وہ ہر عاقل  اور دیندار انسانوں کو اپنی بے کسی کے عالم میں دعوت دیتے ہیں کہ اگر تمہیں خدا کی رضا کا حصول چاہئے تو ہم سے اپنا رشتہ جوڑ لیں ۔ ہم بھوک  اور پیاس سے مر رہےہیں ۔ ہمیں بھی کھاناکھلائے۔اگر تمہیں دینِ اسلام کی صداقت اور قیامت کے دن  پر کامل یقین ہے تو یتیموں اور مساکین کو اپنے سے دور نہ رکھیں۔ ان کی خوشی میں دراصل خود کی خوشی پنہاں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

 أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ٘  فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ٘  وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ٘    107.3

ترجمہ: بھلا تم نے اُس شخص کو کیا دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے ۔ یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کے لئے ترغیب نہیں دیتا۔

 اس آیہ مبارکہ پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ حقوق العباد کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اور یہ اس وقت مکمل ہوگا کہ خدا کے بندوں کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کیا جائے۔موجودہ حالات  پر اگر غور کیا جائے  تو کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ایسے  ناگفتہ حالات میں خداندِ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو  ہمارے لئے ایک رحمت کی صورت میں عنایت کی ہے کہ ہم اس کے تقد س  کا خیال رکھتے ہوئے اس کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض حاصل کرتے ہوئے خدا کے بےسہارا اور غریب بندوں کی طرف دستِ شفقت اور مہربانی کا ہاتھ بڑھائیں۔آج یہ بےسہارا اور پسماندہ طبقہ ہر اہلِ ایمان اوراہلِ ثروت سےپکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ رمضان المبار ک کے ان رحمتوں اور برکتوں کےایّام میں اُن کو فراموش نہ کیا جائے۔

آئیے ! ہم سب مل کر عیدالفطر کے ان  مبارک اّیام  میں  دین اسلام کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلووں پر عمل کرتے ہوئے اپنے اندر پرہیزگاری اور تقویٰ پیدا کریں۔ عید الفطر کی خوشیوں میں دوسرے انسانوں کو بھی شامل کریں اور دوسرے انسانوں کے ساتھ شفقت، ہمدردی، اتحاد اور رحم دلی کا اظہار کرتے ہوئے فیاضی کا مظاہرہ کریں۔ کیا خوب فرمایا ہے مسدس حالی ؔنے:

یہی ہے عبادت یہی دین و ایمان

کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
48255