Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیرالیونے:افریقہ کا ایک آزاد ملک ..(Sierra Leone) …ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
(27اپریل:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر(


جمہوریہ سیرالیونے مغربی افریقہ کا ملک ہے جو بحراوقیانوس کے کنارے پر لائبیریااور جینیاکے درمیان واقع ہے۔اس ملک کا کل رقبہ کم و بیش ساڑھے اکہتر ہزار مربع کلومیٹر ہے۔افریقہ میں ہونے کے باعث گرمیاں یہاں کاقدرتی تحفہ ہیں تاہم مون سون کے موسم میں بارشیں یہاں کے موسم کو کسی حد تک خوشگوار کر دیتی ہیں اس لحاظ سے یہ مغربی افریقہ کا خوش قسمت ملک ہے جہاں سالانہ 195انچ تک سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی جاتی ہے۔ملک کے مشرق میں پہاڑ ہیں کہیں کہیں سطح مرتفع بھی ہے اور زیادہ تر علاقہ میدانی ڈھلوانوں پر مشتمل ہے،پہاڑی چوٹیاں جنگلات سے بھری ہیں۔کرومیٹ کے بے پناہ ذخائر اس سرزمین کے سینے میں دفن ہیں اور کہیں کہیں سونے اور ہیروں کا بھی سراغ ملتاہے۔”روٹائل“یہاں کی بہت قیمتی دھات ہے،یہ ٹاٹینیم ڈائی آکسائڈ(TiO2)کا مرکب ہے اور دنیابھرمیں اس دھات کا سب سے بڑا ذخیرہ اسی ملک کی زمینوں میں دفن ہے۔”فری ٹاؤن“یہاں کا دارالحکومت ہے جو دنیاکی سب سے بڑی قدرتی بندرگاہ بھی ہے۔”بو“یہاں کا دوسرابڑا شہر ہے جس کی یہاں وہی حیثیت ہے جو ہندوستان میں علی گڑھ کی حیثیت ہے،یہ شہر ملک میں تعلیمی صنعت کا درجہ رکھتا ہے۔ملک کو چاربڑے صوبوں میں تقسیم کیاہوا ہے۔جمہوریہ سیرالیونے 27اپریل 1961کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور دولت مشترکہ کا رکن بن گیا،برطانوی دور میں اس علاقے سے غلاموں کی تجارت عروج پر تھی لیکن انیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی پارلیمان نے اس پر پابندی لگادی۔اس سرزمین کی لکڑی ایک زمانے تک یورپ کی منڈیوں کی رونق بڑھاتی رہی جس کے عوض مقامی لوگوں کو غلامی کاداغ ہی میسر آیا۔


جمہوریہ سیرالیونے میں انسانی زندگی کے آثار کم از کم بھی 2500سال قدیم تک ملتے ہیں جب افریقہ کے ہی کچھ علاقوں سے بڑے بڑے قبائل ہجرت کر کے تو یہاں آباد ہوئے۔اس سرزمین پر نویں صدی مسیحی میں لوہے کااستعمال شروع ہوااور دسویں صدی مسیحی میں یہاں کے حبشی قبائل نے پہلی دفعہ زمین کا سینہ چیر کر اس سے نباتات حاصل کی۔قیاس کیاجاتا ہے کہ اس سے قبل یہاں کی زندگی کا دارومدار جانوروں کی پرورش پر ہی تھا۔1462میں پرتگالیوں کے قدموں سے یہ زمین آلودہ ہوئی اور پھر فرانس اور انگلستان سے بھی انسانوں کے شکاریوں نے یہاں ڈیرے ڈالے اور دنیاکوانسانی آزادیوں کا درس دینے والے ایک عرصے تک یہاں سے غلاموں کو پکڑ پکڑ کر اپنے علاقوں میں بھیجتے رہے یہاں تک کہ افریقہ کا یہ ملک سیرالیونے غلاموں کی تجارت کاایک بہت بڑا مرکزبن گیا۔انسانوں کی تجارت کرنے والے ان یورپیوں بیوپاریوں نے یہاں ایک بہت بڑا قلعہ بھی تعمیر کیاجہاں سے حبشی غلاموں کو بذریعہ بحری جہازیورپ کی انسانی منڈیوں میں بھیج دیاجاتا۔صنعتی انقلاب کے بعد آنے والے سیکولرازم نے یورپ سمیت پوری دنیاسے انسانوں کی خریدوفروخت کی منڈیاں ختم کر دیں اور پھر آج تک قوموں کی خریدوفروخت کادھندہ جاری و ساری ہے اورنام نہاد بین الاقوامی اداروں میں تیسری دنیاکی قوموں کی بولیاں لگتی ہیں اور سیاسی و معاشی اصلاحات کے نام پر غلامی مسلط کرنے کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔


جمہوریہ سیرالیونے میں چونسٹھ لاکھ سے کچھ زائد آبادی ہے جبکہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.28%ہے اور شرح پیدائش 0.045%ہے اور شرح اموات 0.022%تک ہے۔یہاں بیس بڑے بڑے قبائل آباد ہیں جو کل آبادی کا90%ہیں۔یہ قبائل اپنے جداگانہ طرززندگی کے حامل ہیں لیکن ان کی اکثر روایات ایک جیسی ہیں،بہرحال آبادی کو مجموعی طورپر سولہ گروہوں میں تقسیم کیاجاتاہے جو مذہب،زبان اور اپنی مقامی ثقافت میں اپنی علیحدہ علیحدہ شناخت کے حامل ہیں۔ دس فیصدلوگ دوسری دنیاؤں سے آئے ہوئے ہیں جن میں یورپ اور پاکستان اور ہندوستان سے آئے ہوئے افراد بھی شامل ہیں۔یہاں کی آبادی میں 60%مسلمان ہیں،10%عیسائی اوربقیہ وہاں کے مقامی مذاہب کے ماننے والے ہیں۔آبادی کی اکثریت کا دارومدار زراعت پر ہے اور چاول یہاں کی نقد آور فصل سمجھی جاتی ہے۔


سیرالیونے کی دفتری زبان انگریزی ہے لیکن بہت کم لوگ اس زبان سے واقف ہیں جبکہ ملک کی اکثرآبادی فرانسیسی زبان جانتی ہے اورایک بہت بڑی تعداد عربی زبان سے بھی شدھ بدھ رکھتی ہے کیونکہ لبنان کے تجار اس ملک میں کثرت سے سوداگری کرتے ہیں۔”کریو“زبان جو انگریزی اور مقامی زبانوں کاایک ملغوبہ ساہے یہاں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہے اور زیادہ تر رابطے کی زبان بھی یہی ہے۔”کریو“زبان سیرالیونے کے باسیوں کے سیاسی اتحاد کا مظہر ہے اور قبائل باہمی تجارت کے دوران اسی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ قبائل اپنی اپنی مقامی زبانیں بولتے ہیں۔شرح خواندگی35%ہے جس میں مرد حضرات کی تعداد زیادہ ہے اور قومی آمدنی کا کم و بیش چارفیصد تعلیم پر خرچ کیاجاتاہے۔ملک میں دس ہوائی اڈے ہیں ریلوے کی سہولت سے یہ ملک تقریباََمحروم ہے تاہم سڑکوں کا بہتر نظام ہے اور حکومت اس نظام پر مزید توجہ بھی دے رہی ہے۔افریقہ میں ہونے کے باوجود بڑے بڑے جانور یہاں کم ہی نظر آتے ہیں،بندروں کی کچھ نسلوں سے ہی یہاں کے جنگلات بھرے پڑے ہیں تاہم دریاؤں میں مگرمچھ اور مچھلیوں کی بہت لذیزاقسام پائی جاتی ہیں۔


مملکت میں 1991کا آئین نافذ ہے جس کے مطابق انتظامیہ،عدلیہ اور مقننہ کے تین ستون ریاست کووجود فراہم کرتے ہیں۔ییہاں کا صدر براہ راست منتخب کیاجاتا اور مقننہ ایک ہی ایوان پر مشتمل ہوتی ہے جس میں مملکت کے چودہ صوبوں کی برابر نمائندگی ہوتی ہے۔یہاں کے آئین کے مطابق انتخابات پانچ سالوں کے لیے ہوتے ہیں اورصدر ہی بیک وقت ریاست،حکومت،فوج اور پولیس کا سربراہ ہوتاہے۔پارلیمان سے بننے والی کابینہ کا صدر نشین بھی صدر مملکت ہی ہوتاہے اس لحاظ سے اس ریاست میں صدر کے اختیارات بے پناہ قوت کے حامل ہیں۔اسی لیے آئین کے مطابق منتخب صدر کے لیے 55%رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے اور اگر پہلی باری میں کوئی امیدوار مطلوبہ اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو باردیگر پہلے اور دوسرے نمبرپر آنے والے امیداروں میں مقابلہ ہوتاہے۔صدر کے بعد دوسراطاقتور عہدہ نائب صدر کاہوتاہے جو صدر کی وفات،استیفی،برخواتگی یاکسی بھی طرح کی غیرجودگی کی صورت میں صدر کے اختیارات استعمال کرتاہے۔ڈسٹرک کونسل اور ٹاؤن کونسلوں کانظام بھی اگرچہ مضبوط ہے لیکن درحقیقت وہاں کے مقامی قبائلی سردار ہی اصل انتظامی قوت کا مرکز ہیں۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ یہاں کی بڑی عدالتیں ہیں اور ابھی بھی انگریزی قوانین ہی یہاں رائج ہیں۔


اسلام یہاں تاجروں کے ذریعے پہنچااورملک کے بڑے بڑے قبائل میں سے شمال کے ”تیمنس“قبائل کے لوگ مسلمان ہیں،اس کے علاوہ بھی تقریباََ ہر قبیلے میں مسلمانوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے۔یہاں اسلام کاباقائدہ تعارف تیرہویں اور سترویں صدی کے دوران ہواجب ”مالی“ اور”سونگھائی“خاندانوں کا دورحکومت تھا۔اسلام کی اشاعت اٹھارویں صدی میں بہت تیزی سے ہوئی اوربرطانوی استعمار بھی نورہدایت کی ان کرنوں کوروک نہ سکا۔1932میں یہاں مسلم کانگریس کی بنیاد رکھی گئی اور 1942میں مسلم ایسوسی ایشن وجود میں آئی۔آزادی کے وقت1961میں مسلمانوں کی تعداد35%تھی جو اب اپنی دو گنے کو چھو رہی ہے،امریکی حکومت کے مطابق یہاں 60%مسلمان ہیں جبکہ افریقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہاں مسلمانوں کی شرح71.3%ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں نے بڑی شاندار مساجدتعمیر کی ہیں،بعض مساجد کی شان و شوکت دیدنی ہے۔یہاں پر مسلمانوں کی متعددتنظیمیں ہیں جو حکومت کے تعاون سے مسلمانوں کے تعلیمی ادارے چلاتی ہیں جن میں بچوں کو قرآن و سنہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کی تعلیم دی جاتی ہے۔جو طلبہ دینی تعلیم میں اضافت کے لیے ملک سے باہر جانا چاہیں ان کی مالی مدد بھی کی جاتی ہے۔

شاید اسی مربوط اسلامی نظام تعلیم کا نتیجہ ہے کہ اسلام کو یہاں پر بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اور ملک کے اندر متعدد نامور تاجر،اساتذہ،پڑھے لکھے لوگ اورقبائلی سرداروں سمیت ایوان اقتدار میں بیٹھے بڑے موثر لوگ مسلمان ہی ہیں۔یہاں کے معاشرے میں مسلمان اپنے لباس سے بھی پہچانے جاتے ہیں خاص طور پر مسلمان خواتین اپنے عبایا سے نمایاں طور پر پہچان لی جاتی رہتی ہیں۔اس ملک میں مسلمان بچے کی پیدائش کے ساتویں دن ”تقریب اسم“منائی جاتی ہے جس میں محلے کے مولوی صاحب بچے کے سر کے بال تراشتے ہیں اور اس کے نام کااعلان کرتے ہیں،اس موقعے پربچے کے تمام رشتہ داروں کو مدعو کیاجاتاہے۔لڑکی کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے کسی لڑکے کے ساتھ منسوب کردیاجاتاہے جبکہ لڑکے والے ایک معقول رقم لڑکی والوں اداکرتے ہیں اور اگر غریب ہوں تویہ رقم قسطوں میں اداکی جاتی ہے جس کی مدت سات سال تک ہوتی ہے۔قبائل کے اندر مسلمانوں کے جملہ عدالتی معاملات مسلمان قاضیوں کی عدالتوں میں فیصلہ کیے جاتے ہیں۔افریقی ممالک میں عام طور پر اور جمہوریہ سیرالیونے میں خاص طورپر قادیانی طبقہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کررہاہے لیکن مسلمان بھی ڈٹ کر اس طاغوت کے مقابلے پر کمربستہ ہیں۔


شیئر کریں: