Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

افغان طالبان کیا عید الفطر پر جنگ بندی کریں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

شیئر کریں:

اس وقت دنیا بھر کی نظریں افغانستان کے مستقبل اور امریکی انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر ہیں۔  استنبول پروسیس کانفرنس موخر ہونے کے باوجود مفاہمتی عمل کے دوسرے مرحلے بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے توقعات بدستور وابستہ ہیں۔  مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے امیدیں، خدشات، واہمے ذہنوں میں موجود ہیں  اور مباحث بھی جاری ہیں۔ افغان طالبان کے قیدیوں کی رہائی کا معاملہ گھمبیر ہوچکا ہے، کابل انتظامیہ مزید افغان طالبان کو رہا نہیں کرنا چاہتی، ان کا کہنا ہے کہ پہلے رہا کئے گئے افغان طالبان دوبارہ جنگ میں شامل ہوگئے ہیں۔  استنبول پروسیس کے موخر ہونے کے بعد جو اہم پیش رفت سامنے آئی وہ وزیر خارجہ کی سطح پر سہ فریقی اجلاس تھا جو پاکستان، افغانستان اور ترکی کے مابین ہوا،  اتفاق رائے پایا گیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل فوجی نہیں ہوسکتا، مذاکرات کئے بغیر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو موثر راستہ نہیں مل سکتا۔ افغان طالبان کا عسکری ونگ، سیاسی دفتر کی مشاورت سے حتمی فیصلہ کرتا رہا ہے، موجودہ کمیٹی میں عسکری اور سیاسی فیصلے کرنے والے زعما ء کی موجودگی کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ اہم و مثبت فیصلے جلد ہوں گے، تاہم امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ بڑھانے کے بعد عدم اعتماد کی فضا دوبارہ پیدا ہوئی ہے، اطلاعات کے مطابق امریکی افواج نے باقی ماندہ بیس کیمپ خالی کرنے  کے لئے سامان سمیٹنا شروع کردیا ہے، مقامی ٹھکیداروں سے معاہدے بھی منسوخ کرنا شروع کردیئے۔کچھ ایسے فوجی سازو سامان کو اسکریپ کیا جائے گا، جس کے لے جانے میں اخراجات زیادہ ہیں اور وہ امریکہ کے لئے اتنے اہم بھی نہیں، تاہم امریکہ اپنا جنگی ساز و سامان افغان فورسز کے حوالے نہیں کررہا، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہیہ جنگی سازو سامان اگر افغان طالبان یا کسی بھی جنگجو گروپ کے ہتھے چڑھ گئے تو امریکہ کے لئے سیکورٹی رسک ہوگا۔


امریکی وزیر خارجہ کے  سرپرائز وزٹ میں صدر اشرف غنی کو حتمی فیصلہ بتادیا گیا کہ امریکہ کسی صورت جنگی میدان میں مزید فوجی رکھنے کے لئے تیار نہیں،  باقی رہی سہی کسر صدر جوبائیڈن کے خطاب نے پوری کرکے کابل انتظامیہ کی تمام امیدیں پر پانی پھیر دیا تھا کہ صدر غنی کو کہنا پڑا کہ اب افغان قوم کو واضح ہوگیا کہ امریکہ مزید افغانستان میں نہیں رہنا چاہتا۔ بین ا لافغان مذاکراتی عمل کے تعطل نے صوت حال کو گنجلک کیا اور اس گھتی کو سلجھانے کی کوششوں کا سرا بظاہر معلوم نہیں،  کابل انتظامیہ کے بعض حکومتی عہدے داران کی جانب سے پاکستا ن پردوبارہ دشنام تراشیاں بھی کی گئیں، افغان طالبان جب اپنے بزرگوں سے مشاورت کا کہتے ہیں  تو بعض عناصر اس سے مُراد  پاکستان لیتے ہیں، گو کہ عالمی برداری اچھی طرح جانتی ہے کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر رسوخ ماضی کی بانسبت کم ہوگیا ہے اور وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں تاہم وہ پاکستان کا احترام پہلے سے زیادہ کرتے ہیں، ان کا سفارتی حلقہ کافی وسیع ہوگیا ہے، بالخصوص ایران و روس اورقطر کے ساتھ متوازن تعلقات نے صورت حال کو یکسر بدل کررکھ دیا۔  پاکستان پوری نیک نیتی سے افغانستان میں پرتشدد کاروائیوں کے خاتمے کے لئے کوشش کررہاہے کہ مذاکرات کے عمل کو پر امن مفاہمت کی راہ پر جانا چاہیے، حکومت پر تنقید کوئی نئی بات نہیں،  لیکن ریاست کی حتی امکان کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں کسی بیرونی ”جانب دار“ حکومت کا قیام عمل میں نہ آئے بلکہ افغان عوام کی مرضی و منشا کے مطابق جو نظام و حکومت آئے، اس کے تعلقات پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے ہوں،تاکہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے عفریت سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرتے ہوئے، پڑوسی ممالک ایسے عناصر کے خلاف مل جل کاروائی کرسکیں۔  پڑوسی ممالک بشمول افغانستان میں قیام امن کے لئے عوام کی فلاح و بہود کے فنڈ استعمال ہوتے ہیں، اگر یہ فنڈز موجودہ صورت حال میں بھیانک کرونا وبا اور غربت کے خاتمے کے لئے استعمال ہوں تو اس سے تمام ترقی پزیر ممالک کو بدترین مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔


پاکستان اپنی شمال مغربی اور مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جان و مال کی قربانی دے رہا،  ریاست کی جانب سے ایسا کوئی ایجنڈا نہیں کہ وہ پڑوسی ممالک میں کسی توسیع البنیاد منصوبے پر عمل کرنا چاہتا ہو،  مملکت صرف اپنی سرحدوں و عوام کی حفاظت کے لئے،  محدود وسائل میں بہترین و پیشہ وارنہ خدمات سر انجام دے رہی ہے، وطن عزیز کو جن حالات کا سامنا ہے،  اگر یہ صورت حال کسی اور ملک کو درپیش ہوتی تو قومی خزانے کا بڑا حصہ خرچ ہوتا،  لیکن مسلح افواج نے اخراجات میں اضافہ کئے بغیر اپنی پیشہ وارنہ مہارت کے ساتھ جدید دور سے ہم آہنگ ہونے اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایک ایسا جامع طریقہ کار وضع کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک دشمن عناصر داخلی طور پر مملکت کو کمزور کرنے کی سازشوں میں مسلسل ناکام ہورہے ہیں،  کوئٹہ میں چینی سفیر کی ہوٹل آمد سے قبل دہشت گردی کا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ انتہا پسند کسی طور پر نہیں چاہتے کہ خطے میں امن قائم ہو،  وطن عزیز کو امن کے نفاذ کے لئے بڑی بھاری قیمت اٹھانا پڑ رہی ہے،  انتہا پسند مسلح افواج کو کئی محاذوں سے زچ کرنے میں مصروف ہیں لیکن انہیں اپنے عزائم میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،  ریاست کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ افغانستان کا مسئلہ جلد از جلد حل ہو اور وہاں افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ایک ایسی حکومت آئے جو پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے، دوستانہ و برادرنہ تعلقات پر یقین رکھتی ہو۔


 امریکی اور اس کے اتحادی رواں برس افغانستان سے کوچ کررہے ہیں،  علاقائی مفادات کے تحت ہر مملکت کی خواہش ہوتی ہے کہ عالمی قوت کے چلے جانے کے بعد ان کا اثر رسوخ نئی انتظامیہ پر آجائے،  لیکن ریاست نے اس حوالے سے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی مملکت کو اپنی منشا کے مطابق لانے کی پالیسی نہیں رکھتے اور مطمع نظر بھی یہی ہے کہ جو بھی حکومت آئے اس کو افغان عوام کی مرضی کے مطابق لایا جائے،  پاکستان اپنے پڑوس ممالک میں امن کا خواہاں ہے،  استنبول پروسیس کے موخر ہونے کے باوجود توقع کی جا رہی ہے کہ افغان طالبان عید الفطر پر سیز فائر کریں،  گو  کہ ان کے لئے ماضی کا تجربہ خوشگوار نہیں تھا تاہم  عید الفطر کے موقع پر تحفظات کے باوجود افغان طالبان جنگ بندی کا اعلان کرکے عوام و عالمی برداری کو امن کا مثبت پیغام دے سکتے ہیں کہ جنگ کے بجائے امن سے ہی قوم کو خوش و خرم رکھا جاسکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
47757