Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈنمارک:یورپ کی فلاحی ریاست۔۔(16اپریل:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)۔۔ڈاکٹر ساجد خاکوانی

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            جوٹ لینڈ نامی جزیرہ نماپر مشتمل ڈنمارک یورپ کا ایک خوشحال ملک ہے۔اس کا کل رقبہ کم و بیش ساڑھے سولہ ہزار مربع میل ہے جس میں متعدد چھوٹے بڑے جزائر اور مختلف جزیرہ نما بھی شامل ہیں۔”جزیرہ“اس خطہ ارضی کوکہتے ہیں جس کے چہااطراف پانی ہو جبکہ ”جزیرہ نما“خشکی کے اس حصہ کو کہتے ہیں جس کے ایک طرف خشکی اور باقی اطراف پانی سے گھرے ہوں۔ ڈنمارک کاخشکی کے راستے یورپ سے رابطہ صرف بیالس میل کے فاصلے کی مختصرسرحد ہے جو جرمنی سے ملتی ہے اسکے علاوہ ڈنمارک کے چاروں طرف سمندر کاپانی ہی ہے۔”کوپن ہیگن“ یہاں کا دارالحکومت ہے جو ”زیلینڈ“نامی جزیرے پر واقع ہے۔یہ گرین لینڈ کے گزشتہ باسیوں کا ملک ہے جو زمانہ قدیم میں جانوروں اور مچھلیوں کے شکار پر گزارہ کیاکرتے تھے۔یہ بنیادی طور پر زیریں سطح کی سرزمین ہے اور سطح سمندر سے زیادہ سے زیادہ سو فٹ ہی بلند ہے۔ڈنمارک کی سب سے بلند جگہ اسکے مشرقی حصے کی ایک پہاڑی ہے جس کی کل بلندی کل 568فٹ اور یہ ملک کاسب سے بلند مقام ہے۔”گدینہ“یہاں کاسب سے بڑا دریا ہے جو کم و بیش ایک سو میل طوالت تک بہتاہے اور ایک جھیل سے نکلتا ہے،یہاں بہت سی جھیلیں بھی ہیں اور سب سے بڑی چھیل”آری“ہے جو کم و بیش 16مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہے۔یہاں کی 60%زمین زراعت کے لیے بہت عمدہ گردانی جاتی ہے۔یہ ایک سرد آب و ہوا کا ملک ہے جہاں ساراسال صفر سے سولہ درجے سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت رہتاہے۔اور ملک کے بیشتر حصوں میں برف بھی جمی رہتی ہے اور بارشیں بھی تقریباََ ساراسال ہی جاری رہتی ہیں۔

            یہاں کی آبادی میں اکثریت مقامی لوگوں کی ہی ہے،بہت کم تعداد میں جرمن،یہودی اور پولینڈکے قبائل یہاں آباد ہوئے لیکن 1980ء کی دہائی میں یوگوسلاویا،ترک،ایرانی اور پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد یہاں پر آباد ہوئی۔”ڈینش“یہاں کی قومی زبان ہے۔پہلے جرمن بہت بولی جاتی تھی لیکن اب جرمن کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے اور پڑھے لکھے لوگ انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں۔ڈنمارک کے قانون میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے چنانچہ سب سے بڑا مذہب عیسائیت ہے اور یہودیوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد یہاں موجود ہے آبادی میں اضافے کی شرح فقط0.28%ہے اور شرح خواندگی99%ہے۔یہاں کا معیار زندگی بہت بلند ہے اور ملک کی آبادی کو تقریباََ تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں۔ڈنمارک کاشماردنیاکی فلاحی ریاستوں میں ہوتا ہے۔یہاں کی آبادی زیادہ تر تجارت اور صنعت سے وابسطہ ہے ملک کی صرف 6%آبادی زراعت کا شغل رکھتی ہے۔ڈنمارک 1973میں یورپین اکنامک کمیونٹی کارکن بناتھاجس کے باعث آج ڈنمارک کے باشندے پورے اسکنڈے نیویا میں بغیر ویزے کے سفر کرتے ہیں انہیں ان ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کی سہولت میسر ہے اورروزینہ آمدن کی مزدوری کے لیے وہ کئی ممالک کاسفر بغیر کسی رکاوٹ کے کر سکتے ہیں اور رقومات کی بلاروک ٹوک منتقلی سمیت بہت سہولیات وہاں کے شہریوں کا حاصل ہیں۔

            ڈنمارک میں انسانی قدموں کے نشان12000سال قبل مسیح میں ملتے ہیں،اس دور کو پتھرکازمانہ کہاجاتاہے۔4000سال قبل مسیح میں یہاں کھیتی باڑی شروع ہونے کے آثار ملتے ہیں۔3500سال قبل مسیح میں تیار ہونے والے وہ کمرے دریافت ہوئے ہیں جو زیرزمین بنائے گئے تھے اور ان میں مردوں کو دفن کیاجاتا تھا۔2800سال قبل مسیح میں بنی ہوئی انفرادی قبروں کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔1800قبل مسیح کے زمانے کے لڑائی کے ہتھیار بھی یہاں کی کھدائیوں کے دوران دریافت ہوئے ہیں۔500قبل مسیح میں ڈنمارک میں ایسی بستیوں کاپتہ چلتا ہے جو کسانوں کی تھیں اور امیرکسان ایک ایک سو فٹ لمبائی کے گھروں میں رہائش پزیرتھے۔400عیسوی تک یہاں آبادی کی کثرت کا پتہ چلتا ہے اور یہاں کے لوگوں نے اس وقت تک رومیوں کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کر لیے تھے۔اسکے بعدوہاں پر خاندانی بادشاہت کا نظام تب سے آج تک کسی نہ کسی صورت میں رائج ہے۔

            ڈنمارک میں قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں،انیسویں صدی میں یہاں بہت غربت تھی تب زراعت کے ادارے بنائے گئے جہاں کسانوں کوزرعی پیداوارکو بڑھانے کے طریقے سکھائے گئے اور اسکے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے مزدور بھی پیدا کیے گئے،زراعت کے ساتھ ساتھ ان اقدامات کے نتیجے میں دودھ،مکھن،انڈے،گوشت اور ان سے وابسطہ جانوروں کی افزائش میں بھی بڑھوتری ہوئی۔بیسویں صدی کے وسط تک زراعت کے باعث یہاں کے حالات بہت بہتر ہو گئے۔اسکے بعد یہاں کی حکومت نے صنعتوں پر بھرپور توجہ دی اور تعلیمی اداروں سے ماہر مزدور پیداکیے۔اب یہاں لوہے اور لکڑی کی بنی چیزیں،خوراک،کاغذ،کپڑااور مشینری کی بہت بڑی بڑی صنعتیں قائم ہیں جنہوں نے اس ملک کی خوشحالی کو دوبالاکردیاہے۔یہاں شہروں اور دیہاتوں تک سڑکوں کا بہت بڑا جال تعمیر کیاگیاہے جس کے باعث مصنوعات کو منڈیوں تک پہچانے کاکم سے کم وقت میں انتظام ہوجاتاہے،یہاں کی سڑکوں کو تیزرفتار بنانے کے لیے بڑے بڑے پل اور لمبی لمبی سرنگیں بھی تعمیر کی گئی ہیں جہاں سے ٹریفک کسی رکاوٹ کے بغیر تیزی سے گزر جاتی ہے۔ڈنمارک میں سڑکوں کے ساتھ ساتھ سائکل سواروں کے لیے الگ سے ایک راستہ بنایا جاتاہے۔انیسویں صدی کے نصف آخر میں یہاں ریلوے لائن بھی بچھائی دی گئی تھی۔

            ڈنمارک میں 5جون1953کا آئین نافذ ہے جس کے مطابق 179اراکین مل کر قانون سازی کرتے ہیں،ان منتخب اراکین میں ملک کے تمام حصوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔وزیراعظم حکومت کاسربراہ ہوتا ہے جو اپنی معاونت کے لیے وزراء کی ایک محدود تعدادکو اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ڈنمارک میں قانون سازی کے لیے ایک ہی ایوان ہے۔ڈنمارک میں ”محتسب“کا بھی کامیاب تجربہ کیا گیاہے جس کا تصور انہوں نے تاریخ اسلام سے لیا،کیونکہ انسانی تاریخ میں سب سے پہلے حضرت عمرنے ”محتسب“مقررکیے تھے جن کے پاس محدود انتظامی و عدالتی اختیارات ہوتے تھے تاکہ فوری اورمختصرنوعیت کے تنازعات بغیرطوالت کے حل کردیے جائیں۔ڈنمارک میں چودہ صوبے اور 275میونسپلٹیز ہیں۔18سال کی عمر کے سب لوک انتخابات میں حصہ بھی لے سکتے ہیں اور انتخابات میں کھڑے بھی ہوسکتے ہیں۔ڈنمارک میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں،جو پارٹی جتنے فیصد ووٹ لیتی ہے قومی اور مقامی منتخب اداروں میں اتنے فیصد نشستیں اسے مل جاتی ہیں،انتخابات چار سالوں کی مدت کے لیے منعقد ہوتے ہیں لیکن آئین کے مطابق وزیرا عظم منتخب اسبلیوں کو کسی بھی وقت تحلیل کر سکتاہے۔ملک میں دو ہائی کورٹس اور ایک سپریم کورٹ بھی ہے اورمیونسپلٹی کی سطح پر متعددپولیس کورٹس بھی ہیں۔

            ڈنمارک میں تعلیم مفت دی جاتی ہے،سات سے سولہ سالوں تک کی عمر میں سب بچوں کے لیے تعلیم لازمی ہے،جبکہ سات سال کی عمر سے قبل 60%بچے پری سکول تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔نویں جماعت کے بعد کچھ بچے فنی تعلیم حاصل کرنے لگتے ہیں اور باقی اعلی تعلیم کے حصول کے لیے اعلی تعلیمی اداروں میں سدھارجاتے ہیں۔حکومت کی طرف سے ڈنمارک کے شہریوں کو صحت کی بہترین سہولیات میسر ہیں لیکن بھر بھی بعض لوگ بل اداکر کے تو مزید بہتر سہولیات حاصل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔معذور افراد حکومت کی طرف سے وظیفہ بھی پاتے ہیں اور 55سال کی عمرکے بعد ہر بیوہ کو اور 67سال کی عمر کے بعدہر بوڑھے اور بڑھیاکو قطع نظر اس کے کہ وہ امیر ہیں یا غریب ہیں ان کو حکومت کی طرف سے خصوصی رعایات دی جاتی  ہیں جن میں مالی معاونت بھی شامل ہے۔ڈنمارک کے آئین کے مطابق ہر فرد جو اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہو اوراسکے ورثا و لواحقین بھی اسکے بوجھ سے عاجز ہوں،ریاست اسکے جملہ اخراجات برداشت کرتی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ اسلامی نظام حیات کے درخشندہ اصول وسری قوموں نے اپنا کراپنے عوام کو خوشحال کر رکھا ہے اور خود اسلامی ملکوں میں غلامی زدہ حکمرانوں نے استحصال کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

            ڈنمارک ایک مذہبی ریاست ہے اورآئین کے مطابق اسکا مذہب عیسائیت ہے۔1968سے1990تک ترکی،پاکستان،مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے 60,000مسلمان یہاں وارد ہوچکے تھے۔یہ لوگ زیادہ ترکوپن ہیگن میں ہی بستے گئے۔اب تک آبادی کاتین سے چار فیصد تک مسلمان ہیں اور یہ سب سے بڑی اقلیت ہیں۔عیسائیوں اور یہودیوں کو ڈنمارک میں قانونی حقوق حاصل ہیں لیکن مسلمانوں کو نہیں،وہاں کی حکومت نے مسلمانوں کو الگ سے مذہبی گروہ ابھی تک تسلیم نہیں کیاتاہم قانون کی پیچیدگیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں نے اپنی آئندہ نسل کے لیے متعدد تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جن میں بیس سکول بھی ہیں۔مسلمانوں کی انیس تنظیمیں بھی وہاں قائم ہیں جو ٹیکس دے کر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں۔ماضی قریب میں ڈنمارک جیسی مذہبی ریاست میں مسلمانوں کے نبی ﷺ کے بارے میں گستاخی پر مبنی کارٹون شائع ہوئے جس کے خلاف پورے عالم اسلام میں بالخصوص اورپوری دنیاکے مسلمانوں نے بالعموم مظاہرے کیے کیونکہ ان کارٹونوں سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی اور انکے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: