Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

روزے کی فرضیت،فضلیت اورفوائد۔۔۔۔۔۔۔محمدآمین

شیئر کریں:

اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو تخلیق کیا اور دنیا میں بیھجا تو ایک مقصد کے تحت بیھجا اور انسان کو کچھ ذمہ داریان بھی عطا کیا تاکہ وہ تخلیق کے اس عظیم مقصد کو حاصل کر سکیں۔قرآن مجید و حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے جنس و انسان کو عبادات کے لیئے پیدا کیا ہے،دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ہم نے اس کائینات کو فضول میں پیدا نہیں کیے ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک رب کائینات نے انسانوں کی ہدایت کے لیئے مختلف شریعت نازل فرمایا تاکہ انسان اپنی اس عظیم تخلیق کو پہچان سکیں اور صحیح معنوں میں اس پر عمل پیرا ہو سکیں،جس کی بناء پر اللہ پاک نے اس تخلیق کو اشرف مخلوقات کا درجہ دیا اور دنیا میں اپنا خلیفہ بنادیا۔


جب مختلف ادوار کے امتوں نے اللہ کی شریعتوں میں تخفیف کیئے اور اپنی من مانی کے تبدیلی لائیں تو اللہ رب العزت نے دوسری شریعت نازل کیا اور یہ سلسلہ محمد ﷺ تک پہنچا اور آپﷺ پر نازل شدہ شریعت الہی دائمی اور تا قیامت بغیر تبدیلی کے قائم دائم رہے گا یعنی کہ قیامت تک اس میں رائی بھر تبدیلی کی گنجائش باقی نہیں اور قرآن کے مطابق جو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرے وہ مکمل گمراہی پر ہوں گے،کیونکہ آپﷺ خاتم الانبیاء ہے۔


دین اسلام میں روزے کو بنیادی حثیت حاصل ہے اور اسلام کے اہم لازمی ستونوں میں سے ایک ستوں ہے جو اللہ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔اللہ پاک نے روزے کی اہمیت و فضلیت کو یوں بیاں فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک فرض ہے جو پہلے امتوں پر بھی فرض گئی تھی۔اس کے بعد قرآن مذید رہنمائی کرتے ہوئے اس کی اوقات کا بھی تعیں کیا ہے۔


نبی کریمﷺ،اس کے آصحاب کرام اور آہلبیت اطہار نے روزے کی اہمیت پر بڑے تاکید فرمائیں ہیں۔امام متقین علی ابن آبی طالبؑ نے روزے سے اپنی محبت کا اظہار یوں فرمایا ہے کہ،اے جہانوں کے پالنے والے مجھے عطا فرما سخت سردی میں فجر کی نماز اور سخت گرمی میں روزے کی استعطاعت،روزے کا حتمی مطلب تقویٰ یعنی پرہیزگاری حاصل کرنا ہے،تاکہ انسان اپنی نفس کی تزکیہ حاصل کر سکیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اے ایمان والو:تم پرروزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیز گار بنو۔


روزے کے بہت سے روحانی،جسمانی اور معاشی فوائد ہیں جو ایک ادمی کو دنیوی اور اخروی دونون جہانوں میں کامیاب و کامراں کرسکتا ہے۔جب ایک انسان پورے ایک مہینے اللہ کی رضاکے خاظر مادوی ذندگی کی خواہشات کو ترک کرتا ہے اللہ کی عبادات اور قران پاک کی تلاوت باقاعدگی سے کرتا ہے اپنی خواہشات کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھانپنے کی کوشش میں رہتا ہے دنیاوی لالچ اور دوسر ے گناہوں سے اجتناب کرتا ہے تو یہ پورا ایک مہینہ باقیماندہ گیارہ مہینوں کے لیئے ایک تربیت گاہ فراہم کرتی ہے اور انسان اپنے اندر روحانی تبدیلی کی جھلک محسوس کرتا ہے اس طرح تقوی ٰ کی طرف یہ ایک اہم قدم ثابت ہوتی ہے۔


اس کے علاوہ ماہ رمضان کے مہنیے میں روزے سب مسلمانوں کے لیئے یکساں طور پر واجب قرار دی گئی ہے اس میں دولت،ذات پات اور عہدے کی کوئی تفرق نہیں اور اللہ نے سب کے لیئے ایک حدود تعین کیا ہے۔جب ایک امیر ادمی ماہ رمضان میں روزے رکھتا ہے تو اسے بھوک کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور اس طرح وہ اپنے ایک غریب بھائی کے بارے میں سوچتا ہے جس سے یہ جذبہ ایمانی پیدا ہوتا ہے کہ اسے اپنے غریب بھائی کی مدد کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں غربت جیسی لعنت کا خاتمہ ہوجائیں۔پھر رمضان کے اخر میں وہ فطرنہ بھی ادا کرسکتا ہے۔نیز یہ رمضان ہی کا مہینہ ہے جس میں مسلمان ذکواۃ ادا کر سکتے ہیں جس سے معاشرے میں ایک معاشی مساوات کا نظام جنم لیتا ہے۔


دور جدید میں سائینسی تحقیق نے یہ نتیجہ آخذ کیا ہے کہ زیادہ کھانا صحت کے لیئے مضر ہوتا ہے اور مختلف اقسام کے بیماریاں بالخصوص موٹاپان جنم لیتے ہیں ماہ رمضان میں روزے رکھنے سے انسان کے اندر مختلف رطوبت خارج ہوتے ہیں اور انسانی معدہ صحیح معنوں میں کام کرتا ہے۔اور بڑھتے ہوئے وزن میں بہت کمی واقع ہوتی ہے۔


شیئر کریں: