Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آقا نہیں رہنما چاہیے!!…… پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:


 لفظ آقا فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔اردو میں بھی اصل معنی میں ہی مستعمل ہے۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق اصلاً یہ لفظ ترکی زبان کا ہے۔ اغلب امکان بھی یہی ہے۔ البتہ اردو میں فارسی سے ہی داخل ہواہے۔ سب سے پہلے 1780ء میں سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔لفظ آقاچند مخصوص اصطلاحی معانی کے علاوہ منفی مفہوم دیتا ہے۔ اس کے برعکس رہنماکا لفظ مثبت مفہوم دیتا ہے۔آقا سے مراد محض کوئی فرد یا گروہ ہی نہیں بلکہ اس سے مراد ایسا نظام بھی ہے جو ملک وقوم پر کسی آقا کی طرح مسلط ہوجائے۔ آقا اور رہنما میں واضع فرق موجود ہے۔

آقا اپنی کامیابیوں کے لیے آپ سے بہترکارکردگی کا تقاضا کر تا ہے اور آپ کی کامیابیوں کو اپنے نام کر لیتا ہے۔ا گر آپ ناکام بھی ہو جائیں تو آپ کو ناکامی کا نہ صرف ذمہ دار ٹھہراتا ہے بلکہ اس کی سزا بھی دیتا ہے۔آقا کے لیے ناکامی کا مطلب لاحاصل کوشش ہے جبکہ رہنما کے لیے ناکامی کا مطلب سیکھنے کا عمل ہے جو آ پ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ آقا آپ کوغلطی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے جبکہ رہنما آپ میں اعتماد پیدا کر تا ہے تاکہ آپ اپنی ذمہ داریوں کا خود احساس کریں۔ آقا طاقت، عہدے یا دولت کی بنیاد پر اپنی کامیابی کو حاصل کر تے ہیں جبکہ رہنما اس کے برعکس اپنے نظریات اور سوچ سے متاثر کرتا ہے۔ آقااپنی بات کی تکمیل کے لیے طاقت، دولت یا عہدے پر انحصار کر تا ہے جبکہ رہنما تحریک دیتا ہے۔ آقا کے پیچھے خوف اور ردعمل کے محرکات کارفرما ہوتے جبکہ رہنما کے پیچھے مقاصد اور جذبہ کارفرما ہوتا۔ آقا کسی بڑی کامیابی پر اس کا سہرا اپنے سر لیتا ہے جبکہ رہنمادوسروں کو کامیاب ہوتا دیکھ کر خوشی محسوس کر تا ہے۔

رہنما اعتماد پیدا کر تے ہیں جبکہ آقا خوف پیدا کرتے ہیں۔آقا حکم صادر کر تا ہے جبکہ رہنما سمجھاتا ہے اور کام پر آمادہ کر تا ہے۔ آقا وضاحت کرتا ہے جبکہ رہنما متاثر کرتا ہے۔ آقا آپ کو بتاتا ہے کہ کیا کرنا ہے جبکہ رہنما آپ کو کر کہ دکھاتا ہے کام کیسے کرنا ہے۔ آقا چیزوں یا مہارتوں کا ماہر ہوتا ہے جبکہ رہنما عوامی احساسات، جذبات، توقعات اور امیدوں کا ماہر ہوتا ہے۔آقا ہمیشہ آپ کاآقا رہنا پسند کر تا ہے جبکہ رہنما آپ کو ترقی دینے اور رہنمائی کرنے کے قابل بنانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔آقا اپنے تجربے اور مہارتوں کی بنیاد پر دوسروں کو پرکھتا اور ان سے کام لیتا ہے جبکہ رہنما دوسروں کی مہارتوں اور قابلیتوں کو جان کر ان کو نکھارتا ہے۔ آقا سکھاتا ہے اورسیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ رہنما سیکھنے سیکھانے کے عمل کو لازم و ملزوم تصور کرتا ہے۔ آقا اپنے آپ کو افراد اور اقوام سے بالاترہونے پر یقین رکھتے ہیں جبکہ رہنما اپنے آپ کو افراد اور قوم کا حصہ تصور کر تے ہیں۔ رہنما سننے کو ترجیح دیتے جبکہ آقا بولنے کو فوقیت دیتے۔ آقا طبقاتی نظام کو فوقیت دیتے جبکہ رہنما مساوات کے قائل ہوتے۔ آقا کام کرنے کا حکم صادر کر تا ہے جبکہ رہنما ساتھ مل کر کام کر تا ہے۔ رہنما کسی بھی کام کے لیے خود عملی آغاز کرتے ہیں جبکہ آقا بیٹھ کر دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔

آقا دولت، عہدہ یا طاقت کو استعمال کرتے ہیں جبکہ رہنما وقت صرف کر تے ہیں۔ آقا عارضی مفادات کے خواہاں ہوتے جبکہ رہنما دوراندیش ہوتے اور دیرپا قومی مفادات کو ترجیح دیتے۔ آقا تعداد پرتوجہ دیتے جبکہ رہنما تربیت کو بنیادی اکائی شمار کرتے ہیں۔ آقا جزا و سزاء کے اصول پر کاربند ہوتے جبکہ رہنما تحریک اور متاثر کرنے کے عمل کے قائل ہوتے۔ آقا اپنی مرضی مسلط کر تا ہے جبکہ رہنما باہمی تعاون، اعتماد اور اشتراک پر یقین رکھتا ہے۔ آقا کے پس پردہ طاقت بیرونی ہوتی ہے جبکہ رہنما اندورنی طاقتوں کو استعمال کر تا ہے۔ آقا کام تفویض کر نے کے بعداس کی نگرانی کر تا ہے اور خود کام نہیں کرتا جبکہ رہنما کام آپس میں تقسیم کر تا ہے اور خود بھی شامل ہوتا ہے۔آقا دوسروں کو قصوروار ٹھہراتا ہے جبکہ رہنماذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی اصلاح کر تا ہے۔ آقا غلطی کی سزا دیتا ہے جبکہ رہنما غلطی کی صلاح کرتا ہے اور اس سے سیکھتا ہے۔

آقا کے ماتحت ہوتے جبکہ رہنما کے پیروکار ہوتے۔ آقا دولت، طاقت یا عہدے کی وجہ سے عزت حاصل کر تا ہے جبکہ رہنمااپنے کردار، نیک نیتی اور میعارکی بنیاد پر تکریم حاصل کرتا ہے۔ آقا ذاتی اورمالی مفادات کو ترجیح دیتا جبکہ رہنما عوامی ترجیحات پر کاربند ہوتا ہے۔ آقا نوجوانوں کو اپنے ماتحت رکھنے کا عادی ہو تا ہے جبکہ رہنما نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارتے ہوئے ا نھیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔آقا عوام پر حکمرانی کرتا ہے جبکہ رہنما عوام کی ترجمانی کر تا ہے۔ آقا اختیارات کو اپنے تک محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ رہنما اختیارات کو دوسروں تک منتقل کرتا ہے اور دوسروں کو موقعہ فراہم کر تا ہے۔ ہماری نوجوان نسل اور قوم کو رہنماوں کی اشد ضرورت ہے جو ہمیں درست سمت میں رہنمائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ بدقسمتی سے ہم پر مختلف اقسام کے آقا مسلط ہیں جن کی وجہ سے ہم دیگر ممالک اور اقوام کی مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان موروثی، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، سامراجی اور پیرپرستانہ آقاوں سے چھٹکارہ حاصل کریں اور ملک و قوم کے لیے رہنماوں کا انتخاب کریں۔ جمہوریت کے نام پر نسل در نسل اقتدار پر براجمان آقا تب تک ہماری جان نہیں چھوڑیں گے جب تک ہم خود ان کی زنجیروں کو کاٹ کر اپنے آپ کو آزاد نہیں کر لیتے۔


شیئر کریں: