Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معافی نامہ۔۔۔۔۔گل عدن

شیئر کریں:

شعبان معظم ایک نہایت فضیلت اور برکت والا مہینہ ہے ۔اس ماہ لوگوں کے اعمال نامے الله کے حضور پیش کئیے جاتے ہیں۔اس ماہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نفلی عبادات اور روزوں کا بہت اہتمام فرماتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کے “لوگ رجب اور رمضاں کے اس درمیانی مہینے سے غافل ہوتے ہیں حالانکہ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی کے حضور اعمال لائے جاتے ہیں لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میرا عمل بارگاہِ الہٰی میں لا یا جائے تو میں روزہ سے ہوں ۔(سنن نسائی )


اس ماہ کی پندرہویں شب کو یہ درجہ حاصل ہے کہ اس شب اللہ تعالی آسمانِ دنیا پر جلوہ افروز ہو تے ہیں ۔اور تمام بندوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔اسطرح طلوعِ آفتاب تک رحمتوں کے نزول کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے ۔کہتے ہیں کہ اس شب کسی کی طلب رد نہیں ہو تی ۔یہ بخشش کی رات ہے ۔اس رات کے پیش نظر ہمیں ناصرف اللہ تعالی سے معافی مانگنے کا موقع ملتا ہے بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے معافی مانگنے اور معاف کرنے کا جواز مل جاتا ہے اس عظیم رات کے طفیل ۔کیونکہ ہم بحثیت مسلمان کے حقوق العباد سے خود کو کھبی آزاد نہیں کرسکتے ۔اللہ نے ہم پر حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھاری ذمے داری بھی ڈال دی ہے ۔حقوق العباد کو اللہ کے بارگاہ میں اتنی اہمیت و مقام حاصل ہے کہ ہم اللہ تعالی کے حقوق میں اپنے کمی بیشی تو معاف کرواسکتے ہیں لیکن اگر ہم نے کسی انسان کا حق کھایا ہے کسی کو دھوکہ دیا ہے ۔ کسی کا ادھار لیا ہے کسی سے جھوٹ بولا ہو کسی کی غیبت کی ہو ۔کسی کی دل آزاری کا سبب بنے ہوں تو اللہ پاک کی ذات ہمیں اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ انسان ہمیں معاف نہ کریں ۔اور ساری مشکل یہاں سے شروع ہو تی ہے ۔ یہاں آکر پتا چلتا ہے کہ معافی کا اجر اتنا زیادہ کیوں رکھا گیا ہے ۔

یہ صرف اللہ کی ذات ہے جو ہمارے گناہگار زندگی کو ندامت کے صرف ایک آنسو سے پاک کردیتی ہے ۔ہم انسان ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں کو بھی کبھی اتنی آسانی سے معاف نہیں کرپاتے اور اگر کھبی اپنی رشتوں محبتوں اور حالات کے خاطر کسی کو معاف کر بھی پائیں تو دل سے اس زخم کو کھبی بھلا نہیں پائیں گے ۔یہی فرق ہے رب کی معافی میں اور انسان کی معافی میں ۔ہاں البتہ رب کے بعد اگر کوئی کھلے دل سے معاف کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو انبیاء اکرام کے بعد یہ شرف والدین کو حاصل ہے ۔معاف کرنا اک صبر آزما عمل ہے سو ہے مگر معافی مانگنا معاف کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔لیکن اس مشکل کو گلوبل ویلج نیٹ موبائل فون سوشل سائیٹس اور انگریزی کے ایک لفظ SORRY نے کافی حد تک آسان بنادیا ہے۔لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ حق بات پر حقدار سے معافی مانگنا اور حقداروں کو معاف کرنا آج بھی پہلے کیطرح مشکل ہے ۔

معافی مانگنا اسلئیے بھی آسان نہیں کے ضروری ہے ہم پہلے اپنی غلطی کو پہچان پائیں پھر تسلیم کرسکیں کے ہم سے یہ غلطی سرزد ہو ئی ہے تب جاکر معافی مانگنے یا معاف کر نے کا عمل آتا ہے ۔اور رہی بات اکیسویں صدی کی نیو جنریشن کی تو کلمہ حق ہے کہ اس جنریشن نے sorry کے استعمال میں معافی نامہ کو بھی مذاق بنادیا ہے ۔روز غلطی کرنا روز سوری بولنا ۔والدین سے اساتذہ سے دوست احباب سے روز جھوٹ بولنا ۔روز وعدہ توڑنا۔دھوکہ دینا پھر سوری بول دینا کتنا آسان ہوگیا ہے حیرت ہو تی ہے۔ ۔!! ہرسال شبِ برات کو معافی ناموں کے کچھ پیغامات موصول ہو تے ہیں اور کسی کو بیجھے جاتے ہیں ۔افسوس ناک حقیقت ہے کہ کھبی بھی ہمیں وہ معافی نامہ نہیں ملتا جس پر صرف ہمارا حق تھا ۔اور کھبی بھی ہماری طرف سے ان اشخاص کو معافی نامے نہيں بیھجے جاتے جن کا حق تھا کے ہم ان سے معافی مانگیں ۔کیونکے حقدا ر تو ہمارے بلاک لسٹ میں ہو تے ہیں ۔

یا حقداروں کے نمبر تو ہمارے کانٹیکٹ لسٹ میں save ہی نہیں ہو تے اور جن کو معافی نامے آساآسانیسے معافی نامے بیجھے گئے یہ وہ لوگ ہیں جن کیساتھ ہم اس دنیاوی زندگی میں ہمیشہ بنا کے رکھنا چاہتے ہیں۔اورا سے ترجیحی زندگی تو کہا جاسکتا ہے مگر حقیقی نہیں ۔ ۔!! ہم اللہ سے تو پھر بھی چھپ چھپا کے بھی معافی مانگ لیتے ہیں مگر ایک دوسرے سے معافی مانگنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتے۔ ہماری انا ہمیں تمام زندگی ضمیر کی عدالت میں مجرم بن کر سر جھکائے زندگی گزارنے پر مجبور کردیتی ہے ۔۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ جرم ناقابل معافی ہو تے ہیں چاہے ہم معافی مانگ بھی لیں ہم جانتے ہیں ہمیں معافی نہیں ملے گی ۔قتل چوری اور ڈاکے کی سزا تو دنیا بھی دیتی ہے لیکن جھوٹ غیبت الزام تراشی اور دلآزاری کی سزا صرف اللہ تعالی دیتا ہے ۔اور ان کی معافی بھی نہیں ہو تی ۔دوسروں کی عزتِ نفس مجروح کرنے کی معافی اور دلآزاری کی معافی کھبی نہیں مل سکتی ۔کیوں کے للہ رب العزت کے محبوب پیغمبر محمد مصطفی ﷺ کا ارشاد ہے کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ دل آزاری ہے ۔” اور مظلوم کی آہ سیدھا عرش تک پہنچتی ہے سے ایک ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہاں لفظ مظلوم کا مطلب اگر کافر کا بھی دل دکھایا تو اسکی آہ عرش کو ہلا ڈالے گی۔چاہے کوئی زبان سے بد دعا دیں یا معاف کردیں ۔


بخشش کی اس عظیم رات اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے گناہوں کو معاف فر ما کر ہمیں معاف کرنے کا اور معافی مانگنے کا حوصلہ عطاء فرمائے ۔آمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
46882