Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد۔۔۔۔۔۔۔۔واٹر منیجمنٹ یا اصلا ح آب پا شی۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

شیئر کریں:

خیبر پختونخوا میں واٹر منیجمنٹ یا اصلا ح آب پا شی کا محکمہ زر عی نظام کا حصہ ہے اس کے تحت فصلوں کو بھی بہتر پا نی مہیا کیا جا تا ہے فارم فارسٹ یا گھر یلو جنگل با نی کو بھی فروغ دیا جا تا ہے میدا نی اور پہا ڑی علا قوں میں اس محکمے کے ما ہرین ایسی زمینوں کو سیراب کر تے ہیں جن کو بنجر خیال کیا جا تا تھا یہ محکمہ روایتی ٹھیکہ داروں کو لیکر کام نہیں کرتا بلکہ کسا نوں کی انجمن کے ذریعے کام کر تا ہے کسی گاوں میں کسا نوں کی انجمن اس بات کی نشا ن دہی کرتی ہے کہ یہاں زمین ہے، پا نی بھی ہے فصل ہو سکتی ہے جنگل با نی بھی ہو سکتی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پا نی کو زمین تک پہنچا یا جائے یا کسی گاوں میں زمین زیا دہ ہے فصل اور جنگلات کا رقبہ کا فی بڑا ہے مگر پا نی کم ہے آخری کنارے پر جو سبزہ ہے اس کو پا نی نہیں ملتا اگر نہروں کو پختہ کیا جا ئے تو رس رس کر ضا ئع ہو نے والا پا نی سبزے تک پہنچ جا ئے گا واٹر منیجمنٹ کے ما ہرین مو قع پر جا کر دیکھتے ہیں تخمینہ تیار کر تے ہیں کسا نوں کی انجمن کے ساتھ ایک معا ہدہ کر تے ہیں معا ہدے کے تحت تعمیرا تی سا ما ن محکمے کے وسائل سے مہیا ہو تے ہیں مقا می اشیا ء پتھر، بجری اور ریت وغیرہ کسا نوں کی انجمن مہیا کر تی ہے مزدوری پر کوئی پیسہ نہیں لگتا انجمن کے ممبروں کی طرف سے رضا کا را س منصو بے پر کا م کرتے ہیں یہ مو جود ہ حا لات کے مطا بق بہترین انتظام ہے یہاں تک لکھا تو سید شمس النظر فاطمی نے مدا خلت کی اور نا قدانہ، نا صحا نہ انداز میں بولے باتیں سب سچ ہیں مگر زما نہ حال نہیں یہ ما ضی کا واقعہ ہے اس لئے ”تھا،تھے،تھی“ آنا چاہئیے ۔

سات سال ہو گئے واٹر منیجمنٹ کا محکمہ بند ہو گیا ہے میں نے کہا تمہاری اطلا ع درست نہیں دفتر مو جو د ہے بورڈ لگا ہوا ہے قابل اور تجربہ کار لو گوں پر مشتمل عملہ ہر ضلع میں بیٹھا ہوا ہے تم آنکھیں کھو لو ما سک لگا کر اور ہا تھ دھو کر کورونا کے پیچھے لگے رہنے کی جگہ پشاور سے با ہر جا ؤ کر ک اور لکی مروت تک سیر کر کے آجا ؤ، ما نسہرہ اور بٹگرام کا چکر لگاؤ، دیر اور چترال کی سیر کرو تمہیں پتہ لگے گا کہ واٹر منیجمنٹ ما ضی کا قصہ نہیں زما نہ حال کا معا ملہ ہے شاہ صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا میں نے براول اور چترال کا چپہ چپہ چھا ن مارا ہے، ما نسہر ہ اور کر ک بھی ہو آیا ہوں یہ ما ضی کا قصہ ہے ہر جگہ بورڈ لگا ہوا ہے افیسر بیٹھے ہوئے ہیں میرا خیال تھا کہ سوارب درخت لگا نے کے منصو بے سے ان کو وافر حصہ ملا ہو گا زرعی خو د کفا لت کے انقلا ب سے ان کا دامن لبا لب بھرا ہو گا مگر ایسا نہیں ہے عملے کی تنخوا آتی ہے گاڑی کے لئے پٹرول ملتا ہے دفتر کے لئے مکا ن کا کرایہ اور بجلی کا بل ملتا ہے آگے خیر خیر یت ہے منصو بوں پر پا بندی ہے کسا نوں کی انجمنوں کا پر سان ِحال نہیں،

اصلا ح آب پا شی کی کوئی فکر نہیں مجھے عکسی مفتی کی کتاب ”کا غذ کا گھوڑا“ یا د آگئی اس کتاب میں ایک بیوروکریٹ نے اپنے 35سالہ تجربات کا نچوڑ بیان کر تے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی اچھا حکمران آتا ہے تو نئے ادارے بنا تا ہے اس ادارے کے مقا صد بڑے نیک ہو تے ہیں اس کے اہداف نما یاں اور واضح ہو تے ہیں بڑے جو ش و خروش کیساتھ کام شروع ہو تا ہے نہا یت کامیا بی سے کا م آگے بڑھتا ہے پھر ایک دن یہ ادارہ غیر فعال ہو جا تا ہے حکمرانوں کی تر جیحات بھی بدل جا تی ہیں افیسروں کا جو ش و خروش بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے عوامی آواز دب جاتی ہے چنا نچہ فائلوں پر گرد بیٹھ جا تی ہے دفتروں میں تنخوا ہ، پنشن اور بنو یلنٹ فنڈ کے سوا کوئی مسئلہ پڑھنے اور سننے کو نہیں ملتا واٹر منیجمنٹ کا ایسا ہی حال ہوا ہے وزیر اعظم عمران خان کے وژن کو آگے بڑھا نے میں یہ محکمہ سب سے زیا دہ مدد گار ثا بت ہو سکتا تھا لیکن اس کو مو قع نہیں دیا گیا۔

کسا نوں کی انجمنوں نے 2013ء میں جو سکیمیں تجویز کی تھیں وہ اب تک فائلوں کے نیچے دبی ہوئی ہیں حق تویہ تھا کہ ایک ارب پودے لگا نے کی سکیم ہو یا سوارب درخت لگا نے کی سکیم ہو دونوں سکیموں میں فنڈ کا بڑا حصہ واٹر منیجمنٹ کو ملنا چا ہئیے تھا اس میں ایم پی اے صاحبان کا حصہ نہیں ہو نا چا ہئیے تھا ممبران اسمبلی سارافنڈ ایک ضلع میں لگا کر قرب و جوار کے 8اضلاع کو محروم کر دیتے ہیں وسائل کی تقسیم ضلعی انتظا میہ اور فیلڈ افیسروں کی مشاورت سے ہو نی چاہئیے تھی ایسا ہوتا تو کوئی بھی ضلع صو با ئی خزا نے سے آنے والے فنڈ کی تقسیم کے عمل میں محروم نہ ہو تا واٹر منیجمنٹ یا اصلا ح آب پا شی کا محکمہ وزیر اعظم عمران خا ن کے وژن گرین پا کستان کا علم بردار ہے اس کو دوبارہ فعال ہو نا چا ہئیے۔


شیئر کریں: