Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خدا دیکھ رہا ہے………گل عدن

شیئر کریں:

ایک محاورہ جو کثرت سے سننے کو ملتا ہے کہ ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنایا جاسکتا ہے ۔۔ زاتی طور پر یہ محاورہ کبھی بھی میرا پسندیدہ نہیں رہا ۔کیونکہ یہ مجھے باپ جیسے مقدس رشتے کی شان کے خلاف لگتا ہے ۔یہ سوچ ہی تکلیف دہ ہےکہ جو لوگ ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنا سکتے ہیں پھر تو ایسے لوگ ضرورت کے تحت باپ کو بھی گدھا بنا لیتے ہوں گے ۔ ۔اور حقیقت ایسے ہی بدصورت ہے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔ ۔!! اس مشینی دور میں آپ کو خود سمیت شاید ہی کو ئی بے غرض انسان نظر آئے ۔اسے قسمت کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم ایسے نفسا نفسی کے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں میں ‘آپ اور ہم سب اپنی غرض اور ضروریات کے آگے اندھے ہو چکےہیں اتنے اندھے کے ہمیں اپنی خوشی اور اپنی ضرورت کے علاوہ کچھہ نظر ہی نہیں آتا ۔جنہیں پورا کرنے کی خاطر ہم نے رشتوں ‘ناطوں اور دوسروں کے جذبات و احساسات کی دھجیاں اڑا دیں ہیں ۔اور اپنی اس بےحسی اور خود غرضانہ روئیے کو ہم نے پریکٹیکل ہو نے کا نام دیا ہے ۔ہم سب اخلاقی پستی کے ایسے دلدل میں پھنس چکے ہیں کے اگر ہم اپنے گریباں میں جھانکیں تو ہمیں خود سے گھن آنے لگے گی ۔


آپ نے گلی بازاروں میں جابجا گدھا گاڑی دیکھیں ہوں گے جن کی بدولت انسان کی روزمرّہ کی زندگی میں آسانی ھو گئی ہے ۔لیکن یہ بےچارہ گدھا اتنا بوجھ اٹھانے کے باوجود مسلسل ہم اشرف المخلوقات کی نفرت ‘تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بھی بنا رہا ہے ۔ ۔کتنی عجیب بات ہے نا کے جو ہمارے کام آرہا ہے جو تکلیف سہکر ہمارا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ وہی ہماری آنکھوں میں کٹھکتا ہے ۔ وہی ہماری نفرت کا بوجھ بھی اٹھا رہا ہے آخر کیوں ؟ بعض اوقات مجھے ہم انسان گدھے سے زیادہ قابلِ رحم لگتے ہیں ۔آخر فرق ہی کیا ہے ہم میں اور گدھے میں ؟؟ ہم بھی تو اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائے ہو ئیے ہیں ۔ اور ہر طرح کی بوجھ اٹھانے کے باوجود ہمارے حصے میں بھی تو نفرت اور دھتکار آتی ہے ۔۔


بلکے دیکھا جائے تو ہم نے گدھے سے زیادہ بوجھ اٹھائے ہو ئے ہیں’ ضرو ر یات کا بوجھ ‘ اور ضروریات کی خاطر احسانات کا بوجھ ۔ زہریلے روئوں کا بوجھ ۔ احساسات جذبات کا بوجھ۔خواہشات کا بوجھ ۔محبت اور نفرتوں کا بوجھ ۔سب سے بڑھ کر پاسداری کا بوجھ ۔وہ بوجھ جس نے ہم سب کو کٹھ پتلی بنا رکھا ہے ۔ آپ نے کھبی غور کیا ہے کہ دل میں زہر رکھنے کے باوجود ہم اپنی ضرورت کے تحت لہجے میں کیسے مٹھاس لے آتے ہیں ۔ صرف اپنی غرض کی خا طر کسی کو وقت دےدیا کسی کو عزت دے دی ۔ کسی کو اہم بنا دیا صرف اپنے کام نکلوانے تک ۔دراصل ہم ہی وہ قابل نفرت لوگ ہیں جنہیں ( بڑے غرور ) سے آتا ہے عام سے خاص اور خاص سے عام کرنا ۔ ۔ اس بات سے بے خبر کے ہم گدھے کی آڑ میں اپنا ہی مذاق اڑا رہے ہیں ۔

اس بات سے انکار نہیں کے ایک دوسرے کے کام آنا اور ایک دوسرے کے لئے آسانی پیدا کر نا انسانی معاشرے کی خوب صورتی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس خوبصورتی کو ہم نے اپنی خود غرضی کی بدولت اپنے ہاتھوں سے بدصورتی میں تبدیل کر دیا ہے ۔کسی کو ہم نے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے والی مشین بنا دیا ہے اور کسی کے ہاتھ ہم خود جذبات سے عاری روبوٹ بن چکے ہیں۔ھماری تمام تر دوستیاں ‘رواداریاں اخلاص محبتیں لحاظ مروت اور سب کچھ ہماری ضرورتوں کے گرد گھومتی ہے مگر ہماری بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ مکافاتِ عمل کی حقیقت کو رد کر کے ہم اپنے تئیں مظلومیت اور عظمت کی مینار پر کھڑے ہم اللہ تعالی سے اس یقین کے ساتھ کے خدا دیکھ رہا ہے بہترین صلے کی امید پر جیئے جا رہے ہیں ۔۔ مختصراً ہم اشرف المخلوقات نے جو سلوک گدھے کے ساتھ روا رکھا ہے ‘ دراصل ہم نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا ہے ۔اسلیے صد شکر کہ خدا تو واقعی دیکھ رہا ہے ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
46769