Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مہجورزیست……چترالی بیٹیاں اور معاشرتی بے حسی……..تحریر۔دلشاد پری بونی چترال

شیئر کریں:

ایک طٖرف جبکہ ڈاوٗن ڈسٹرکٹ بیاہی گئی چترالی خواتین پر ظلم اور ان کی قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے تو دوسری طرف پیسہ بٹورنے کا مذموم مقصد لئے مقامی دلال بے بس و مجبور حوا کی مزید بیٹیوں کا سودا کرنے میں زیادہ سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔ان دنوں بہت سے ایسے خواتین کے ساتھ واسطہ پڑا جو صرف حالات کے ستائے ہوئے ہیں اور تشدد سہ رہے ہیں۔ان مظلوموں کا چاہے گلا کاٹ کے پھینک دیا جائے یا قتل کرکے بوری میں ڈال کر دریا برد کرے یا کچھ اور ،کسی کو کیا پرواہ۔وہ ہر قسم کے ظلم سہ لیں گے مگر اف تک نہی کریں گے کیونکہ ان کو اس معاشرے اور والدین کی عزت بہت پیاری ہوتی ہیں،وہ برائے نام ناموس عزیز ہیں جن کو صرف معاشرے نے اپنے سوچ کے مطابق عورت تک محدود کرکے رکھا ہے۔

آئے روز دوران ڈیوٹی شوہر اور سسرال یا بھائیوں کے تشدد سہنے والے چترالی بیٹیاں جب داد رسی کے لئے قانون کا دروازہ کھٹکٹاتے ہیں توبھی قانون کا سہارا لیتے ہوئے ان کے ہاتھ رکھ جاتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں معاشرے کے طعنزو طعنوں کا خوٖف ،طلاق کا خوف ہے اس خوف سے بچنے کے لئے وہ ہر ظلم سہنے کو تیار۔یہ ڈر معاشرے نے اور ماں باپ نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ چاہے کبھ بھی ہو جائے واپس نہی آنا ہے۔اگر اسکی جگہ ہم بیٹی کو یہ سمجھا دے کہ ٓاپ پر جب بھی ظلم ہو جائے تو کسی چیز کی پرواہ نہ کرے۔اپنے آپ کو زہنی مریض نہ بنائے بلکہ ماں باپ کے گھر کا دروازہ آپ کے لئے ہمیشہ کھلا ہے۔مگر نہیں، ہم اتنے فراخ دل ہو ہی نہی سکتے۔ہم میں سے کچھ کے اپنے مفاد اس میں پوشیدہ ہوتے ہیں کیونکہ کسی نے بیٹی دے کر پیسے لئے ہونگے،ماں باپ کو برائے نام عزت پیاری اور باقی رہی سہی کسر معاشرہ کے طنزوطعنہ جگر چھلنی کر دیتے ہیں۔پھر جب اس بیٹی کے حق کے لئے قانون ہا کوئی تنظیم حرکت میں آجاتی ہے تو ہم ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے الٹا ان کے خلاف بولنے لگ جاتے ہیں۔وہ بیٹی جنہیں ہمیں خود تحفظ دینی چاہئے ان کو اگر دوسرا تحفظ دے تو ہمیں وہ بھی برداشت نہیں اور اس بیٹی کو بے بسی کے اتنے گہرے دلدل میں ڈالتے ہیں کہ اس کا کٹا ہوا گلہ ہمیں منظورہے مگر اسکی واپسی کسی صورت ہمیں منظور نہیں۔


چنیوٹ سانحے کے بعد ہمارے ڈاؤن ڈسٹرکٹ بیاہی گئی بیٹیاں اپنی جان بچانے کی خاطر چترال واپس آنا چاہ رہی ہیں۔کچھ تو بھاگ کے جان بچا کر واپس جب اجاتے ہیں تو یہاں بھی مقامی دلالوں کی وساطت سے وہ ان تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ ہم سے مدد لینے اجاتے ہین۔ان دلالوں کی پھر صحیح حقیقت کھل جاتی ہے جب اس آدمی کے شان میں قصیدے پڑھتے اور چترالی بیٹی پر الزامات کی بارش کرتے دیکھتی ہوں۔اس ہفتے کے اندر بہت سے ایسے بہنوں سے ملاقات ہو گئی جو اپنی جان بچا کر واپس اگئے ہیں لیکن یہاں بھی ان کا پیچھا وہ لوگ نہی چھوڑ رہے۔ان دنوں ایک چترالی بیٹی کا اپنے پنجابی شوہر کے ساتھ کیس چل رہا ہے۔بیٹی اپنی جان بچانے کے لئے صرف محفوظ رہنے کے لئے چترال کے اندر اپنا گھر بنانا چاہتی ہے ۔اس کیس کے سلسلے میں دفتر میں بیٹھی تھی۔ حیرت کی انتہا اس وقت ہوئی جب ساتھ بیٹھے چترالی آدمی کو عورت کو گالیاں دیتے اور اس پنجابی کے حق میں قصیدے گاتے دیکھا ۔اس بہن کی زبانی پتہ چلا کہ اس آدمی نے تو پیسے لیکر اس کے شادی اس پنجابی سے کروایا تھا۔


اتنے سستے داموں ہم کسی دلال کے ذریعے اور اسکی ضمانت لکھ کر دینے پر ہم بہت خوشی سے اپنے اولاد پرائے کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور ان کاتحفظ یا مستقبل کی کوئی فکر ہمیں دامن گیر نہیں ہوتی۔نہ اس بے بس عورت کی آنکھوں میں چھپی کرب ہمیں نظر آتے ہیں اور نہ ہی موت کے خوف سے ا سکے لرزتے ہونٹ۔افسوس اس بات کا ہے کہ دلال بھی چترالی ضمانت دینے والے بھی چترالی،بیجنے والے بھی چترالی،اکسانے والے بھی چترالی،پھر واپس آنے پر طنز مارنے والے بھی چترالی۔

کل میں دفتر میں بیٹھی تھی تو ایک اوربہن آئی اور بتایا کہ ماموں نے میری شادی ڈاؤن ڈسٹرکٹ کروائی تھی کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے۔لڑکے کو بھی مجھے دیکھایا نہیں گیالیکن رخصتی کے بعد اس کے گھر جا کے پتہ چلا کہ وہ لڑکا زہنی مریض تھا اور چترال کے علاوہ کہیں اور مفت میں عورت نہی ملنے والی تھی۔وہ بہن ڈر ڈر کے یہ بھی بتا رہی تھی کہ اس علاقے میں اور بھی چترالی بہنیں ہیں جن پر ظلم کی انتہا ہے مگر ان کو واپس انے نہی دیا جا رہا کہ بقول اس کے ان کو پیسے دے کر خریدا گیا ہے۔مگر وہ بہن بھی اتنی ڈری ہے کہ صرف اتنا بتایا ایک بہن لٹکوہ سے مردان میں بیاہی گئی ہے جن پرظلم کی انتہا ہے اور اس کو واپس آنے بھی نہی دیا جا رہا کہ ہم نے پیسے لے کر خرید کر لے آئے ہیں۔،اور ایک اپر چترال سے۔

میں ان کے ماں باپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اپنے جگر کر گوشوں کو یوں ذلت سے مارنے کے لئے مت چھوڑنا۔کم از کم ان کے پیچھے جا کر پتہ تو کرناکہ اپکی بیٹی کس حال میں ہے؟ان دنوں ایک اور بہن بھی شادی کے ایک ماہ بعد ہی واپس ائی ہے،کہہ رہی ہے کہ یہاں سے مجھے رخصت کرواکے بہو بنا کر لے گئے تھے مگر وہاں تو مجھے نوکرانی بنا دئے تھے اسلئے واپس اگئی ہوں۔خدارا اپنی بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کے ہر ایرے غیرے کے ہاتھ میں تھما نے کی بجائے ان کو تعلیم سے آراستہ کرو اور بیٹی کی تر بیت سے زیادہ بیٹے کی تر بیت پہ زور ینا تاکہ آپ کا بیٹادلال بن کر کسی اور کے بیٹی کی زندگی برباد نہ کرے۔یہ صرف کتابی باتیں نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور مجھ سے ان کو تحفظ دینے کی خاطر جو کچھ ہوتا ہے وہ میں کرتی ہوں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
46643