Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تعلیم خور مگر مچھ……پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:


دنیا بھر میں غریب گھرانوں کے 20 میں سے 01 جبکہ امیر وں کے 10میں سے 9 بچوں کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے۔3-17سال کی عمر کے طلبہ میں انٹرنیٹ سے محرومی کا تناسب مغربی اور وسطی افریقہ میں 95%، مشرقی اور جنوبی افریقہ میں 88%،جنوبی ایشیاء میں 75%،مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں 49%، مشرقی یورپ اور وسط ایشیاء میں 42%، مشرقی ایشیاء اور پیسیفک میں 32% جبکہ دنیا بھر میں اس وقت 67% یعنی 1.3بلین بچے انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔اگر ان تمام ممالک اور علاقوں کے مجموعی انٹرنیٹ کے استعمال کا ڈیٹا لیا جائے تو تعلیمی مگر مچھ سامنے آجائیں گے جنہوں نے ہماری نئی نسل کو اس سہولت سے دو رکھا ہوا ہے۔ بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونینITU اور یونیسیف کے مشترکہ جائزے کے مطابق جنوبی ایشیاء کے 88%طلبہ کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ہم بھی جنوبی ایشیاء میں بستے ہیں۔ 15-24سال کی عمر کے 63% یعنی 759ملین طلبہ کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔اس وقت پاکستان سکول چھوڑنے کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں پر 5-16عمر کے تقریبا 22.8ملین بچے سکول نہیں جاتے جواس عمر کی کل آبادی کا 44% بنتے ہیں۔5-9سال کی عمر کے 5ملین بچے کبھی سکول نہیں گئے اور پرائمری کے بعد سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد دوگنا ہو جاتی ہے۔لڑکپن کی عمر کے 11.4ملین طلبہ کسی بھی قسم کی رسمی تعلیم سے محروم ہیں۔

سندھ میں 52%غریب بچے جن میں 58%لڑکیاں ہیں سکول نہیں جاتے،بلوچستان میں 78%لڑکیاں سکول نہیں جاتی،تقریبا 10.7ملین لڑکے اور 8.6ملین لڑکیاں پرائمری سکولوں تک نہیں پہنچی۔ لڑکیوں میں سکول چھوڑنے کا تناسب 3.6ملیں جبکہ لڑکوں میں 2.8ملین ہے۔ آزاد کشمیر کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جسے ہم نے سیاسی مگرمچھوں کی نظر کر کے ناخواندہ رکھا ہے بلکہ ہم نے ان کے معاشی کردار کو پس پشت ڈال کر اپنی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔گرتی معیشت کے ذمہ دار اسحاق، ڈار، سرتاج عزیز یا حفیظ شیخ ہی نہیں ہیں بلکہ وہ تمام سیاسی تعلیم خور مگر مچھ ہیں جنہوں نے اس قوم کی نئی نسل کو تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے۔ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے ہماری نئی نسل اور دنیا کے باقی ممالک کے بچوں میں ایک بہت بڑا فرق پیدا ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے اپنی نئی نسل کو جدید ڈیجیٹل تعلیم سے آراستہ نہ کیا تو ہم باقی دنیا سے کہیں پیچھے رہ جائیں گے۔ پاکستان میں کووڈ کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش نے تقریبا 40ملین طلبہ کو متاثر کیا۔

جس کے پاس انٹر نیٹ نہیں ہے اب اس کے لیے تعلیم کا تسلسل ممکن نہیں ہے۔ دہی علاقوں اور غریب گھرانوں کے طلبہ اور شہری اور امیر گھرانوں کے طلبہ کے درمیان پہلے سے موجود فرق اب بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ یونیسیف اور ITU نے دنیا بھر میں طلبہ کو انٹرنیٹ سے آراستہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور 30ممالک کے 800-000سکولوں میں حکومت کی مدد سے انٹرنیٹ تک رسائی کاہدف مقرر کیا ہے،مگر ہمیں کیا ملے گا جہاں وادی نیلم کی آفات سماوی کے پیسے ڈی سی اور یم ایل اے کھا جائے اور سندھ میں پاگل کتوں کی ویکسین کے پیسے وڈیرے کھا جائیں وہاں انٹرنیٹ کی دستیابی کی امیدیں لگانا عبس ہے۔ آزادکشمیر میں 4202سرکاری پرائمری سکولز ہیں جن میں 9589 اساتذہ موجود ہیں۔ 43%بچے سکول نہیں جاتے، سکول چھوڑنے کی شرح 35%ہے جبکہ اساتذہ میں غیر حاضری کا تناسب 12%ہے۔41% سکولوں کی عمارت یا توموجود نہیں یا وہ بیٹھنے کے قابل نہیں ہے،87% سکولوں میں بجلی نہیں، 73%میں پینے کا پانی نہیں، 82% کی کوئی حفاظتی دیوار نہیں ہے۔جنوبی ایشیاء میں پاکستان تعلیم پر سب سے کم بجٹ لگاتا ہے۔ آزاد کشمیر چونکہ پاکستان کے زیر انتظام ہے وہاں تعلیم پر اونٹ کے منہ میں زیرے کا دانہ ہی رکھا جا تا ہے۔ آزاد کشمیر میں تعلیمی بجٹ کا 99% تنخواہوں، الاونسسز، پنشن اور دیگر اخراجات پر خرچ ہو جاتا ہے اور صرف 1.15%بجٹ بچتا ہے جو پرائمری تعلیم پر لگایا جا تاہے۔ مڈل، سیکنڈری اور اعلی تعلیم کے لیے بلترتیب 9.25%,23.73%,اور 9.46% لگایا جاتا ہے۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد پرائمر ی کے بعد سکول چھوڑ جاتی ہے جس کا تناسب 35% ہے۔

آزادکشمیر بلخصوص وادی نیلم کے تعلیم خور مگر مچھوں نے شعبہ تعلیم کو اپنی سیاست کی نظر کر دیا ہے۔ سکولوں،ان کے اساتذہ اور طلبہ کو سیاسی نعرہ بازی اور سیاسی پروگرامات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ ہمارے وزیر تعلیم اور مستقبل کے ایک سیاسی امیدوار نے اپنی کمیشن کے لیے نیلم کی غریب عوام پر پرائیوٹ سیکٹر مسلط کیا۔ اہلیت ہوتی تو سرکاری سکولوں کو درست کرتے جب 100جونئیر اساتذہ کو سیاسی بنیادوں پر سینئر پر مسلط کیا اور تعلیم کو سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا پھر قوم کا یہی حال ہونا ہے۔ ہمارے ایم ایل ایز کے لیے سب سے بڑا خطرہ نیلم کی خواندگی اور وہاں کی عوام میں بیداری ہے۔ اگرہمارے بچے  پڑھ لکھ جائیں گے تو یہ حکمرانی کس پر کریں گے۔ عرصہ دراز تک میری وادی کو گدی نشینوں کے لنگر کے حلوے کے طور پر استعمال کیا گیا پھر موروثیت نے ڈیر ے ڈال لیے۔ موروثیت کی بیماری کو کمزور کرنے کے لیے پنڈی سے سیاسی بیج لا کر آبیاری کی گئی۔بیج تو ہم نے ترقی کا بویا تھا مگر درخت پر کرپشن، اقربہ پروری، غیرقانونی ٹھیکوں، میرٹ کی پامالی اور عوامی استحصال کی شاخیں بہت تیزی سے نکھری۔اس وقت نیلم ویلی میں گھوسٹ اساتذہ کی بھر مار ہے۔ گھوسٹ اساتذہ میں نیلم اور بلخصوص اپر نیلم ٹاپ پر ہے۔ ڈی ای او زنانہ و مردانہ، سیکرٹری تعلیم و دیگرانتظامیہ اپنا حصہ لے کر فائل صاحب کو بھیجنے کا کہہ کرچپ سادھ لیتے ہیں۔ ڈی ای او زنانہ و مردانہ تو اتنے بے بس ہیں پتہ نہیں اتنے بے بس اور بے اختیار افراد کو کھٹ پتلی بنا کر ان عہدوں پر کیوں تعینات کیا گیا ہے۔ شاید یہ بھی مفتی منصور صاحب کی طرز کے ہوں جن کو حکومت ختم ہونے کے بعد پتہ چلا تھاان کے پاس کتنی وزارتیں اور اختیارات تھے۔

اس وقت اپر نیلم سرداری اور ہلمت میں گھوسٹ اساتذہ نے اندھیر نگری مچائی ہوئی ہے۔ صبیحہ بی بی جونیئر معلمہ عائشہ صدیقہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سرداری ٹھیکہ سسٹم اور سیاسی اثرورسوخ کے بل بوتے پر مظفرآباد بیٹھ کر تنخواہ لے رہی ہیں۔اسی سکول کے انچارج ہیڈ ماسڑخطیب محمد مشتاق نے ملی بھگت سے چند ہزار روپیوں کے لیے اپنے بیٹے کو ان کی جگہ پر لگایا ہوا ہے۔ہماری غریب عوام اپنے ٹیکسوں سے ان کے گھروں کے چولہے جلاتی، انکی تنخواہیں ادا کرتی اور ان کی آل اولاد کے رزق کا وسیلہ ہے اور یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کو داوہ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ثمرہ بی بی پرئمری معلمہ گرلز ہائی سکول سرداری  جو سیاسی اثر ورسوخ، رشوت ستانی اور محکمانہ ملی بھگت سے نومبر میں آن ڈیوٹی آرڈر کروا کر مظفرآباد میں جلوہ افروز ہیں اور ہمارے ٹیکسوں سے اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ بھر رہی ہیں۔

سیکرٹری تعلیم، ڈی ای او زنانہ و مردانہ کوباضابطہ تحریری درخواستوں دی گئی مگر جب نوٹ چلتا ہے تب کچھ نوٹ نہیں کیا جاتا۔ لگتا یوں ہے محکمہ کے افسران ان سے ماہانہ وصول کر تے ہیں اسی لیے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے۔ اگر سیاسی چمچوں کے تلوے چاٹنے ہیں تو پھر تنخواہ بھی ان کے اکاونٹ سے لیں عوام کے ٹیکسوں پے نہ پلیں۔ ایک اور معلمہ صوبیہ بی بی نے چند دن حاضری لگوائی اور پھر اپنی جگہ ہلمت کے ایک نام نہاد مدرس غلام احمدکی بیٹی کوملی بھگت سے چند ہزار روپے کے عوض لگوا کر خود مظفرآباد قیام پذیر ہیں۔ یہ چند نام ہیں باقی فہرست بہت لمبی ہے۔ ایسے بھی اساتذہ ہیں جو دہائیوں سے ایک ہی سکول میں سروس کر رہے ہیں۔ ان کا نہ تو تبادلہ ہو تاہے اور نہ ہی ان کو کوئی پوچھنے والا ہے۔ نیلم میں تعلیم کو سیاسی انتقام کا ہتھیار سمجھا جا تا ہے۔ سیکرٹری تعلیم، ڈی ای او زنانہ و مردانہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔لگتا ہے ان کے کانوں میں رشوت کے نوٹ پھنسے ہوئے ہیں جوآواز نہیں جاتی جبکہ ہمارے بچوں کا مستقبل داو پر لگا ہوا ہے۔ نیلم کو تبدیل کرنے والے دعویدار اور سیاسی شعبدہ بازیہ جان لیں نیلم کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ سیاست کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔


شیئر کریں: