Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش۔۔۔۔۔۔مرشد کی صحبت۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شیئر کریں:

میں کافی دیر سے ہاتھ میں باری کا ٹوکن پکڑے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کرونا کی وبا کے پیش نظر بنک انتظامیہ نے آنے والوں کو فاصلے پر بٹھا رکھا تھا انتظار کی وجہ سے مختلف لوگوں اور عملے کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کر نے پر مجبور تھا کہ دوسری بار سیکورٹی گارڈ پھر باآواز پکارتا ہے کوئی شخص ٹوکن مشین پر اپنا موبائل بھول گیا ہے جس کا بھی ہے وہ مُجھ سے لے سکتا ہے حیرا ن کن بات یہ تھی کہ دوسری بار بھی آواز دینے پر کوئی نہ اٹھا کہ یہ میرا فون ہے دوسری بار جب گارڈنے پھر آکر آواز لگائی تو بنک میں موجود لوگو ں کے ساتھ میں بھی گارڈ کی طرف متوجہ ہو گیا ہم سب ستائشی نظروں سے ایماندار گارڈ کو دیکھ رہے تھے کہ اُس کے ہاتھ میں مہنگا جدید موبائل تھا کوئی اُس کا دعوے دار بھی نہیں تھا گارڈ چاہتا تو آسانی سے جیب میں ڈال کر گھر چلا جاتا لیکن اُس کی آواز جسمانی حرکات سے لگ رہا تھا ووہ بے چینی سے موبائل کے مالک کی تلاش میں تھاتاکہ حقیقی مالک تک موبائل پہنچا کر وہ پر سکون ہو سکے چھ فٹ سے زیادہ قد مضبوط کسرتی جسم بڑی بڑ ی مونچھوں کے ساتھ وہ ایک رعب دار شخص تھا اُس کی آنکھوں کی چمک چہرے کی سرخی اور مضبوط جسمانی عضلات اُس کی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے.

شکل اور جسمانی ڈیل ڈول سے وہ شریف آدمی نہیں لگ رہا تھا عمر میں پچاس سال سے زیادہ کا لگ رہا تھا لیکن بڑھتی عمر کے باوجود جسمانی اعضا اور اندورنی نظاموں کی مستعدی نظر آرہی تھی یعنی اگر کوئی اُس کو ایک نظر دیکھے تو رعب کا احساس ہو تا لیکن امانت کو واپس لو ٹانے کا جذبہ اُس کو نیکوں کی فہرست میں ڈال رہا تھا میں اور باقی لوگ اُس کو تحسین بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے تھوڑی دیر میں ہی موبائل کا مالک آگیا تو گارڈ نے مو بائل اُس کے حوالے کر دیا موبائل کا مالک بو لا میں ٹوکن لے کر مارکیٹ میں کچھ لینے چلا گیا موبائل یہاں بھول گیا جب کہ میں بازار میں جن دوکانوں پر گیا وہاں بار بار تلاش کر تا کیونکہ بنک داخلے کے وقت میں نے موبائل کو آف کر دیا تھا شکر ہے میرا لاکھوں کا مو بائل مل گیا اب اُس نے شکرانے کے طور پر چند ہزار گارڈ کو پیش کئے تو گارڈ نے سختی سے منع کر دیا اگر میں نے پیسے ہی لینے تھے تو تمہارا موبائل کیوں واپس کر تا میری نیکی ضائع نہ کرو اور نہ ہی مجھے تمہارے چند ہزار رپوں کی ضرورت ہے بندے کے بار بار پیسے دینے کی کوشش کی لیکن گارڈ چٹانی لہجے میں انکار کر تا رہا پھر وہ بندہ شکریہ ادا کر کے بیٹھ گیا میں اور چند لوگ یہ سارا منظر غور اور دل چسپی سے دیکھ رہے تھے موجودہ دو ر جب مادیت پرستی کے سیلاب کا کرہ ارضی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے .

جدید دور کے تقاضوں اور مادی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لیے آج کا انسا ن جائز نا جائز کی حدود کو سالوں پہلے پامال کر چکا ہے جو دن رات مادی وسائل کو بڑھانے کے چکر میں ہے حرام حلال کو تین طلاقیں دے چکا ہے اِس ملک میں لوگ بنکوں کے بنک ڈکار کر بھی آرام سے نہیں بیٹھتے اِسی دو لت کے بل بوتے پر اقتدارکے ایوانوں میں قبضہ یا رسائی حاصل کر تے ہیں پھر اپنی لوٹ مار کا ریکارڈ صاف کر اتے ہیں یا پھراین آر اولے کر ایمانداری کا گولڈ میڈل گلے میں ڈال کر اگلی لوٹ مار کے منصوبے بناتے ہیں کرپشن اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے دولت کی یہ فراوانی اور اقتدار تک رسائی کے شرمناک مناظر اہل وطن نے موجودہ سینٹ کے الیکشن میں خوب خوب دیکھے ہیں کہ پہلی حکومتوں نے تو کرپشن کے ریکارڈ بنائے ہی تھی تبدیلی سرکار کے دعوے دار ریاست مدینہ کے دعوی کرنے والوں نے کرپشن اور دولت کے جو دریا ایکشن جیتنے کے لیے بہائے اور ڈھٹائی سے یہ بھی نعرہ مارا کہ ہم کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کر یں گے مادی کرپشن کا بازار اِس حد تک گرم ہے کہ ریڑھی والے سے لے کر بڑے شاپنگ مال کے مالک کو دیکھ لیں یا پھر چپڑاسی سے اقتدار کے ایوانوں تک کون ہے جو اِس لت میں دھنسا ہوا نہیں ہے مادی حرص کی بھوک اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب اِس کو جرم گناہ برائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ عقل مندی ذھانت اور آرٹ کہا جاتا ہے.

مادیت پرستی کے اِس طلسم ہو شربا میں عام بیس ہزار کی تنخواہ لینے والا سیکورٹی گارڈ مادیت پرستی کو ٹھوکر مار کر ایمانداری کا اعلان کر رہا تھا میری رگ تجسس بھڑک رہی تھی کہ آخر کیا وجہ سے یہ مادیت پرستی میں غرق نہیں ہوا دولت کا حمار اور حرص اِس کو کیوں چھو کر نہیں گزری تھی بنک کا وقت ختم ہو رہا تھا میں نے چیک کیش کرا یاتو اُس کے پاس آگیا اورمٹھاس بھرے لہجے میں پوچھا جناب آپ کس علاقے یا شہر کے ہیں تو اُس نے حیران کن طور پر جس گاؤں کا نام لیا وہ میرے گاؤں سے چند دیہات آگے تھا اور اُس کے گاؤں میں میرا ایک دوست بھی تھا میں نے خوشگوار حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اپنے دوست کا نام بتایا تو وہ بھی مسکرا کر بولا ہاں وہ میرا دور کا رشتہ دار ہے پھر ہم اُس دوست کی باتیں کر نے لگے اجنبیت کی دیواریں ٹوٹتی چلی گئیں اور گفتگو کا آغاز ہو گیا ساتھ ہی اُس کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا اُس کی جگہ نیا گارڈ آگیا تو بولا آؤ جناب میں بھی جانے لگا ہوں ہم باہر آئے تو میں بولا جناب یا چائے پی لو یا پھر پلا دو تو وہ بولا آپ میرے عزیز کے رشتہ دار ہیں میں آپ کو چائے پلا تا ہوں ساتھ ہی چائے کے لیے قریبی جگہ پر آکر کر سیوں پر بیٹھ گئے تو میں بولا جناب آپ نے موبائل واپس کیوں کیا تو شیریں لہجے میں بولا سائیں نے یہ سبق دیا تومیں بولا کون سائیں تو وہ بولا میر امرشد جس کی صحبت نے میرے سارے گند صاف کر دئیے ہیں یہ میرے مرشد کی صحبت کا نتیجہ ہے جب اُس نے مرشد کا نام لیا تو میں ہمہ تن گوش الرٹ ہو گیا میرا حساس ایریاں شروع ہو گیا وہ بولا جناب میں ایک چور ڈاکو تھا شرابی کبابی دنیا جہاں کی خرابیاں میرے اندر موجود تھیں.

لوٹ مار چوری لوگوں کو دھمکیاں دینا میرا معمول تھاکہ میرے گھر والوں نے میری شادی کر دی میری لوٹ مار جاری تھی دس سال گزر گئے اولاد نہ ہوئی تو ڈاکٹروں حکیموں کے علاج کے بعد بابوں درویشوں کے پاس جانا شروع کر دیا تو ایک اہل نظر کے پاس گیا تو اُس نے مجھے دیکھتے ہی کہاتم لوگوں سے ان کی چیزیں چراتے ہو خدا تم کو کیسے اولاد کی نعمت دے گا اُس درویش نے میرے سارے کالے کرتوت بتا دئیے تو میں اُس کے کشف پر حیران ہو گیا اُس کے پاس جانا شروع کر دیا اُس کا مرید ہو گیا اور توبہ کر لی تو ایک دن مرشد بولا یار تمہاری توبہ قبول ہو گئی ہے اب خدا تمہیں اولاد کا خزانہ عطا کرنے والا ہے پھر مرشد کی بات سچ ثابت ہوئی اوپر تلے خدا نے مجھے تین خوبصورت صحت مند بچے عطا کئے میں دن رات مرشد کی صحبت میں وقت گزارتا پھر مرشد سے جدائی کا وقت آگیا مرشد کے وصال کے بعد میں نے زندگی کی گاڑی کو دھکا دینے کے لیے مختلف نوکریاں شروع کردیں قد کاٹھ کی وجہ سے بنک کی نوکری ملی تو شروع کر دی لیکن مرشد کی صحبت کا رنگ اندر تک اُتر چکا ہے میں نے چوری لوٹ مار ترک کی تو خدا نے مجھے اولاد کے خزانے سے نواز دیا پھر گارڈ اپنے مرشد کی بہت ساری باتیں کر تا رہا اور میں مزے لے لے کر سنتا رہا پھر اِس وعدے کے ساتھ وہ چلا گیا کہ دوبارہ ملاقات ہو گی میں گلے تک اُس کی محبت میں گرفتار گھر کی طرف چل پڑا کہ ایک سو سال جھوٹی عبادت کی بجائے اگر کسی اہل اللہ کی محبت میں ایک پل گزارا جائے تو وہ ایک سو سال کی عبادت پر افضل ہو تا ہے مرشد کی صحبت کا فیض یہ سیکورٹی گارڈ تھا جس کو مادیت چھو کر نہیں گزر ی تھی۔


شیئر کریں: