Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسلام میں حجاب کا فلسفہ۔۔۔۔محمد آمین

شیئر کریں:

لباس پہننا اتنا پرانا ہے جتنی انسانی ذندگی،فکری مکاتب میں سے صرف ایک مکتبہ فکرکے علاوہ سب اس پر عمل پیرا ہیں اور وہ مکتبہ فکر ننگے ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔انسان کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات سے مرتبط ہونے کے علاوہ لباس کم از کم انسان کی تین اہم ضروریات کو پورا کرتا ہے یعنی کہ گرمی و سردی سے بچانا،عفت و حیا کی حفاظت کرنا اور خوبصورتی و حیا کا باعث بنا۔
حجاب کی اصطلاحی معنی پردے کے،چھپانے اور دست رزی سے روکنے کے ہیں اس اصطلاح کے معنی صرف ظاہری پردے میں منحصر نہیں ہیں بلکہ عورت کو نامحرم مرد کی نظر سے چھپانا مقصودہے،لہذا ہر پردہ حجاب نہیں کہلائے گا۔حجاب وہ پردہ ہے جو کسی چیز کے پشت پر واقع ہونے سے حاصل ہو۔پردے کے حوالے سے قرآن کریم میں جو ایت نازل ہوئی ہے کہ،
، جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی چیزمانگو گے تو پردے کے پیھچے سے مانگو۔(سورہ احزاب)َ۔
یہ آیت انحضرتﷺ کی بیویون کے بارے میں نازل ہوئی اور اس میں ایک مخصوص حکمت ہے،عورت کے پردے کے بارے میں لفظ حجاب کا استعمال ایک جدید اصطلاح ہے،چونکہ مذکوہ بالا آیت کو عام طور پر پردے کی ایت سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے بعض نے یہ گمان کرلیا کہ اسلام چاہتا ہے کہ عورت ہمیشہ گھر میں بند رہے اور باہر نہ نکلے اور پردے کے پیھچے سے گفتگو کریں۔بعض نے یہ دعوی کیا ہے کہ حجاب ایراینوں کے زریعے عربون اور اسلام میں داخل ہوا حالانکہ حجاب سے معتلقہ آیت جو عورتوں کو نامحرم مقابل پردے کا حکم دیتی ہے ایرانیوں کے اسلام قبول کرنے سے قبل نازل ہوچکی تھی۔مغربی مورخ ویل ڈیورانٹ کے بقول جاہلت کے دور میں عربوں میں ایسا پردہ رائج نہیں تھا،عربوں کی عادت تو اپنے اپ کو ظاہر کرنے کی تھی جس اسلام نے منع کیا۔


اسلامی پردہ اسلام کے ضروری احکام میں سے ہیں جس مین کوئی مسلمان شک نہیں کرسکتا ہے کیونکہ قران مجید نے بھی اس کا واضح حکم دیا ہے اور بہت سی روایات بھی اس کی وجوب پر دلالت کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام کے تمام مکتبہ فکر نے بالاتفاق اس کا فتوی دیا ہے جیسا کہ نماز و روزہ کسی خاص زمانے سے اختصاص نہیں رکھتے پردہ بھی اسی طرح ہے لہذا کوئی پردے کے کسی خاص زمانے کے ساتھ اختصاص کا دعوی کرتا ہے تو یہ دلیل ہے کہ اللہ نے مردوں اور عورتوں کو چشم چرانی سے روکتا ہے اور فرماتا ہے کہ بدن کو نا محرم سے چھپانے کی کوشش کریں جیسا کہ ارشاد تعالی ٰ ہے


اے،پیغمبر مومن مردون سے کہہ دیں کہ اپنی انکھیں بند رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائیں یہ کا م ا ن کی پاکیزگی کے لیئے بہتر ہے اور خدا اسے جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔(سورہ نور)۔دوسری جگہ ارشاد ہے
اے پیغمبر مومنہ عورتوں سے کہدیں اپنی انکھیں بند رکھیں اور عفت اپنائیں اپنا دامن نا محرموں سے بچائیں اپنی زیب تن ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں اور محرموں پر سوائے ان حصوں کے جو ظاہر ہوں اپنی چادرون کو اپنی گریبان تک نیچے کر لیں تاکہ سر، گردن،اور کان چھپ جائیں اپنے پاوں اس لیئے زمین پر نہ ماریں کہ پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائیں،اے مومن بندو سب کی توجہ اور رجوع کرین تاکہ فلاح پاجاوُ۔


اس ایت میں بالخصوص عورتوں کے پردے کے حوالے سے دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،ایک سر چھپانا اور دوسرا زینت (میک اپ) کو چھپانا۔قران میں جو لفظ خمر استعمال ہوا ہے وہ خمار کی جمع ہے اور اس کپڑے کو کہتے ہیں جس سے سر چھپایا جائے یعنی سرپوشی اور،،جیوب،،جیب کی جمع ہے جس کے معنی سینہ و گریبان کے ہیں۔صاحب تفسیر مجمع البیان بیا ن کرتے ہیں کہ مدینہ کی عورتین اپنی دوپٹے کے اطراف پشت پر ڈال لیتی تھی اور ان کا سینہ گردان اور کان ننگے رہتے اس ایت نے انہیں حکم دیا کہ اپنے دوپٹون کو سینہ و گردان پر ڈالیں تاکہ یہ جگہیں بھی ڈھک جائیں۔ٖحضرت ابن عباس اس جملہ کی تفسیر میں فرماتا ہے کہ عورت پر بال،سینہ،گردان اور گلے سے نیچے والی جگہ کو ڈھانپنا ضروری ہے۔انسان کے لیئے اپنی ارائیش و زیبائیش جائز ہے لیکن نا محرم کے سامنے خودنمائی جائز نہیں ہے اپنی دیکھ بال اور ارائیش و زیبائیش فطری عمل ہے۔خوبصورت پسندی کی حس انسان میں ہر طرف کے ہنر و ارٹ کا سرچشمہ ہے یہ قدرتی میلان سنورے ہوئے انسان میں بڑے اہم ذہنی و نفسیاتی اثرات وجود میں لاتا ہے۔اپنے اپکو سنوارنا اور بد حالی اور بے نظمی سے پرہیز انسان کے فطرتی نظام اور ذوق سلیم سے مربوط ہے۔


اسلام میں پردے کی بڑی تاکید ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،،اس طریقے سے وہ پہچانی جائینگی (کہ اصل و شریف خاندان سے اذادعورتین ہیں کنیز نہیں ہیں)،،لہذا اوباشون کی طرف سے انہیں اذیت نہیں دی جائے گی۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اج کی دور میں جب کنیز و غلام کا مسلہ ختم ہوچکا ہے تو یہ حکم بھی ختم ہو جائے گا اس کا جواب یہ ہے کہ کنیزوں کو بھی چھیڑنا اور ازیت دینا جائز نہیں ہے،وہ جو اہم بات ہے یہ ہے کہ حضورﷺ کے دور میں عورتین با پردہ تھیں اوراس کے فوائد میں سے یہ ہے کہ جب عورت پردے کے ساتھ باوقار طریقے سے گھر سے نکلتی ہے اور عفت و پاکدامنی کی رعایت کرتی ہے تو اوباش اور پالید لوگ انہیں چھیڑنے کی جرات خود میں نہیں پاتے ،جو بیمار دل شکار کے چکروں میں ہوتے ہیں وہ ایسے افراد کو مناسب شکار نہیں سمجھ سکتے جو با پردہ ہو۔عورت گل کی مانند نازک ہے جب ایسا ہے تو باغبان پر لازم ہے کہ اس کی حفاظت کریں ورنہ گل چین سے محفوظ نہیں رہے گی۔قرآن مثالی عورتوں کو جو کہ جنت میں جائیں گی پوشیدہ موتی جو کہ صدف میں محفوظ ہوتا ہے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔


اسکے علاوہ قرآن ایسے عورتوں کو قیمتی جواہرت جیسے یاقوت و مرجان سے تشبیہ دیتا ہے کہ جنہیں جوہری خاص تجوریوں میں محفوظ رکھتا ہے تاکہ جعلی جواہرت کی طرح ہر کسی کی دست راس میں قرار نہ پائیں۔پردے کے بارے اکثر نوشتے عورت کے پردے پر متوجہ ہیں اور مردکے پردے پر کم توجہ دی گئی ہے حالانکہ اسلام میں مرد کے لیئے بھی پردے کا حکم ہے کہ وہ نا محرم عورتوں کے سامنے اپنی نگائیں نیچے رکھیں۔،یہ ایک طبعی و عادی بات ہے کیونکہ عورت مظہر جمال و خوبصورتی ہے جبکہ مرد مظہر شیفتگی ہے جو عورت پر مر مٹتا ہے۔اگر چہ مردوں کا پردہ بھی اجتماعی و ثقافتی حوالوں سے بہت اہمیت رکھتا ہے اس وجہ سے قرآن مجید نے معاشرے کے استحکام کے لیئے عورت اور مرد دونوں کے پردے پر بہت توجہ دی ہے۔
ا


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
46610