Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جمہوریت کی حسینہ کا بھرپور انتقام۔۔! ….. قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

شیئر کریں:

   نواب زادہ نصر اللہ خان اختلافی سیاست اور حکومت مخالف اتحاد بنانے میں ایک خاص مقام رکھتے تھے،ملتانی پختونوں کی نورزئی شاخ سے تعلق رکھنے والے نواب زادہ خان مرحوم نے جمہوریت و آئین کے بحالی کے جتنی تحریکیں چلائیں اور ناکامیاں بھی سہی لیکن انہیں اپنے ارادوں سے کوئی نہ روک  سکا۔ انہوں نے آمریت ہو یا پھر جمہوریت کی آڑ میں اختیارات کے غیر مساویانہ تقسیم کے خلاف ایسی ناقابل فراموش جدوجہد کی کہ آج بھی ان کی طرز سیاست کے سبب انہیں بابائے جمہوریت کہا جاتا ہے۔9 جماعتی قومی اتحاد اور ایم آر ڈی کے بینر زسے جمہوریت کو کامیاب اور کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔نواب زادہ نصر اللہ خان کا سب سے بڑا سیاسی کارنامہ دو دائمی حریفوں بے نظیر بھٹو شہیداور میاں نواز شریف کو بحالی جمہوریت کی تحریک (اے آر ڈی) میں اکھٹا کرنا تھا۔

موجودہ دور میں سیاسی رواداری، قومی مفاد میں مصلحت و برداشت کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ آج ان کی کمی واضح محسوس کی جا رہی ہوگی۔فروعی مفادات، سیاسی انتقام اور قیادت کو درپیش مسائل کے باعث صورتحال قابو سے باہر ہوچکی۔پی ڈی ایم کے درمیان نا اتفاقی و مربوط لائحہ عمل اختیار نہ کرنے کی وجہ سے بادی ئ النظر اتحاد کی ہانڈی پیچ چوراہے پھوٹتی نظر آرہی ہے، اس کی بنیادی وجہ گر سمجھنا ہو تو پی ڈی ایم  میں نواب زادہ نصر اللہ خان جیسی شخصیت کا نہ ہونا ہے،  مولانا فضل الرحمن نے نواب زداہ مرحوم کی جگہ پُر کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں مسلسل اس طرح استعمال کیا گیا کہ اُن کا غصہ پی ڈی ایم کی آخری پریس کانفرنس میں کھل کر سامنے آچکا۔اب تک جو بھی سیاسی منظر نامہ بنا تو تینوں مرکزی جماعتوں کے درمیان اعتماد و اتحاد کا فقدان ہی نظر آیا،پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر واحد ایجنڈا آگے بڑھانے والوں کے درمیان فروعی مفادات نے ہی انہیں پسپائی پر مجبور کیا، اس میں حکومت کاکوئی کارنامہ نہیں۔پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کو اپنے ہی اتحادیوں کو منانے میں وقت کا ضیائع  ہوا۔ اتحاد بناتے وقت ہی پی ڈی ایم میں عہدوں کی تقسیم کا مسئلہ اٹھا، جسے بالاآخر طے کرلیا گیا، افرادی قوت کے حساب سے لانگ مارچ و طویل دھرنوں کے لئے مولانا سے زیادہ کوئی تجربہ کار نہیں، تاہم پی پی پی بہت سنبھل کر ایسے پتوں سے کھیلنا چاہتی تھی کہ جس میں نقصان ہونے کی صورت میں بھی انہیں سب کچھ ہاتھ سے نہ دھونا پڑیں، یہ وقت کا تقاضا و سیاسی بلوغت کا آئینہ دار بھی تھا، کیونکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں، جب کہ وفاق کو ٹف ٹائم دینے کے لئے پی پی پی کیبا اختیار سندھ حکومت ہے، جس کی بابت واضح تھا کہ پی پی جلد بازی یا پھر پکی چوٹ نہ لگنے کا یقین نہ ہونے تک حتمی قدم نہیں اٹھا ئے گی۔


پی پی پی نے سینیٹ انتخابات کے لئے دوسری جماعتوں کی بانسبت اچھا کھیل کھیلا، لیکن چیئرمین و ڈپٹی سینیٹ میں چوٹ کھا گئی، انہیں یہاں چوکنا رہنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ کوئی بھی بھول سکا تھا کہ انہوں نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے لئے مبینہ طور پر بلوچستان کا تختہ الٹا تھا، بھلا سیاست میں اتنا بڑا زخم اتنے جلدی کیسے برداشت کیا جاسکتا تھا کہ ایک طرف بلوچستان کی حکومت جائے،تو دوسری طرف سینیٹ میں اکثریت ختم ہوجائے، عدم اعتماد کی تحریک بھی ناکام ہوجائے، اس کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو  کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کی حسینہ نے بھرپور انتقام لیا۔حکمراں اتحاد کو قطعی کریڈٹ نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ سمجھنے والے جان چکے تھے کہ اعداد و شمار کے گنجلگ دھندے میں جب پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کو بھی اپوزیشن کے مکمل ووٹ نہیں پڑے، تو ظاہر ہوچکا تھا کہ پی ڈی ایم میں واضح اختلافات ہیں، ن لیگ کے دونوں ہاتھ خالی تھے اور رہے، پنجاب میں پانچ سیٹیں تو مل گئی، لیکن داغ دار ہوگئے۔ چیئرمین سینیٹ بننا تھا تو پی پی پی کا بنتا، ڈپٹی چیئرمین جمعیت اسلام(ف) کے حصہ تھا، اپوزیشن لیڈر کا کھاتہ، ن لیگ کے لئے رکھا گیا، قیاس آرائی ہے پی ڈی ایم میں اختلافات اور 26مارچ کا لانگ مارچ کے موخر ہونے کے نتیجے میں اپوزیشن کی بڑی جماعت ہونے کے ناطے اپوزیشن لیڈر پی پی پی کا بن جائے، کیونکہ پی ڈی ایم جیت کر بھی ہار گئی، تاہم پرانا فارمولا قابل عمل ہوگا یا نہیں وقت بتائے گا۔


 ن لیگ، پنجاب میں ق لیگ کے لئے قربانی دینے کو تیار نہیں کہ تبدیلی لانے کے لئے چودھری بردارن، خسرو بختیار کے ساتھ اتحاد کرلیں، انہیں صوبہ پنجاب میں عدم اعتماد کے ثمرات سے بھی کچھ نہیں ملنا بلکہ آئندہ الیکشن میں نقصان  کا خدشہ زیادہ ہے، اس لئے پی ڈی ایم کا اگلا محاذ شروع ہی نہ ہوسکا، مولانا فضل الرحمن کو بھی کوئی مطمئن نہیں کرسکا کہ چلو چیئرمین کی نشست پر مہرجیسے بھی لگی وہ عدالت فیصلہ کردے گی، لیکن ان کے امیدوار کو ووٹ ملنے والے ووٹ  تحریک انصاف کو مل گئے۔ یہ گھتی پی ڈی ایم رہنماؤں کے درمیان بڑی تلخی کا باعث بنا، عدم اعتماد کی خلیج بہت گہری ہوچکی، یہی وجہ ہے کہ پی پی پی اجتماعی استعفوں کے آپشن کو آخری دیتے آرہی ہے، اب مارچ سے قبل استعفوں کا مطالبے پر اصرار، عدم اعتماد کی فضا کی وجہ سے ہی ہے،نواز شریف کی واپسی کے مطالبے کو  استعفوں سے نتھی کرنے کا مقصد بھی بظاہر یہی ہے۔


 پی پی پی کی جانب سے مزید وقت طلب کئے جانے کے بعد حتمی امکان ہے کہ رمضان المبارک میں لانگ مارچ نہیں ہوسکتے، عیدین اور محرم الحرام میں شدید ترین گرمی کے باعث دھرنے و احتجاجی مظاہرے ممکن نہیں، جو کچھ پی ڈی ایم کے پٹارے میں تھا اس کے لئے یہی رجب و شعبان کا مہینہ تھا، مناسب ہوگا کہ تما م جماعتیں پارلیمان کا رخ کریں اور انتخابی اصلاحات پر توجہ دیں، الیکٹرونک ووٹ سسٹم اور اوپن بیلٹ پر اتفاق رائے پیدا کریں، کیونکہ جیسے تیسے یہ تین برس گزر گئے، باقی ماندہ وقت بھی کرم خوردہ عوام نکال ہی لیں گے، کم ازکم سیاسی جماعتیں کوئی تو ایک ایسا کام کرجائیں کہ عوام حقیقی رائے دہی سے اپنے نمائندگان کا انتخاب کرسکیں، آر ٹی ایس یا آر اوز کا الیکشن چوری کرنے و دھاندلی کے الزامات کا خاتمہ ہو،اور ایسے نمائندے سامنے آئیں جنہیں واقعتاََ عوام نے منتخب کیا ہو۔یہی اب ملک و قوم کے حق میں بہتر ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
46576