Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کوئل کی کو، کو (افسانہ)۔۔۔۔۔تحریر ؛ محمد ضیاء اللّٰہ زاھد شجاع آبادی

شیئر کریں:

کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو ، یہ آواز میں کئی سالوں سے اپنے گاؤں میں دریا کے کنارے شیشم کے درختوں ? کے جھنڈ سے سنتا آرہا تھا۔ اکثر جب شام کا وقت ہوتا ہے تو مغرب سے تھوڑی دیر پہلے میں بھی دریا کے کنارے درختوں کے اس جھنڈ سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ کر کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کرتی کوئل کی نقل میں جب کوو۔۔اوو کرتا تو کوئل اور میرے درمیان یہ کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کی بولی میں بات چیت کافی دیر چلتی رہتی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئل کیا کہتی تھی؟۔  شاید وہ میری آواز کو بھی کسی کوئل کی آواز سمجھ کر اپنے دن کی کارگزاری سناتی ہوگی۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے میرے اور کوئل کے درمیان چل رہا تھا، اور جب ہر دوسرے تیسرے دن میں ایک میل کی مسافت طے کرکے کوئل سے کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کی بولی میں بات چیت نہ کرلیتا مجھے رات کو نیند نہ آتی۔ میرے خوابوں میں بھی اکثر کوئل کے کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کے نغمے ہوتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے قریب شہری آبادی بڑھتے بڑھتے دریا کنارے کے قریب آپہنچی اور دو سال پہلے کسی ہاؤسنگ پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تو شیشم کے وہ درخت بھی اس کی زد میں آگئے جن پر کوئل بیٹھ کر کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کے ترانے سنایا کرتی تھی۔

اس رات مجھے یاد ہے جب میں گھر کے صحن میں سورہا تھا تو پوری رات کوئل کی کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کی آواز میں سوز اور تکلیف محسوس ہوتی رہی اور کوئل ساری رات اپنا گھر اجڑنے کا نوحہ سناتی رہی۔ اس سے اگلی صبح میں نماز سے پہلے ہی دریا کنارے چلا گیا ، آہستہ سے میں جب اس جگہ کے قریب گیا جہاں درختوں کا جھنڈ ہوا کرتا تھا تو میں نے دیکھا کہ کوئل اپنے پروں میں منہ دبائے وہیں بیٹھی تھی۔ میں سمجھا کہ شاید بے چاری کوئل مرگئی ہے۔ چنانچہ میں نے کو۔۔اوو کرنے کی بجائے چھوٹا سا ایک کنکر اٹھایا اور کوئل کے قریب پھینکا۔۔ کوئل اچانک ہڑا بڑا کر اٹھی اور اڑ گئی۔ پھر اس دن کے بعد کوئل وہاں کبھی نہیں دکھائی دی۔ میں پھر بھی اپنے معمول کے مطابق ہر دوسرے تیسرے دن وہاں جاتا رہا اور کوو۔۔اوو ، کوو۔۔اوو کرتا رہا کہ شاید کہیں سے کوئل کا جواب آجائے، لیکن کوئل کی کوو۔۔اوو کا کوئی جواب نہ ملا۔۔۔ اس طرح دو سال کا عرصہ گزر گیا ،

ابھی تین چار دن پہلے رات کو سوئے ہوئے اچانک مجھے کوئل کی کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کی آواز سنائی دی۔ اس رات بھی کوئل کی آواز میں درد محسوس ہورہا تھا۔  میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں رات کے اس پہر اڑ کر وہیں جا بیٹھوں اور کوئل سے کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کی بولی میں پوچھوں کہ اسے کیا تکلیف ہے۔۔ لیکن۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ رات گزر گئی۔ صبح نیند سے جاگتے ہی میں دریا کی طرف نکل گیا اور ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ میں نے دریا کے کنارے کے قریب اسی جگہ پر جہاں  کبھی درخت ہوا کرتے تھے اور ان درختوں پر بیٹھ کر کوئل اپنی رس گھولتی آواز میں کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کوو۔۔اوو کے نغمے گایا کرتی تھی دیکھا کہ کوئل مری ہوئی پڑی ہے تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ گئے اور میں سوچنے لگا کہ ہوسکتا ہے کوئل کو اس جگہ سے بھی اچھی جگہ رہنے کے لیے مل گئی ہو ،لیکن آخر اس جگہ میں ایسی کیا بات تھی کہ کوئل اپنی زندگی کی آخری چند سانسیں یہیں پوری کرنے آئی۔۔ کیا جانوروں کو بھی اپنا گھر اور اپنا وطن اسی قدر عزیز ہوتا ہے جتنا کہ انسانوں کو؟؟ ۔۔ کیا جانوروں میں بھی حب الوطنی کا جذبہ پایا جاتا ہے؟؟


شیئر کریں: