Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوروز کا تہوار اور اس کی اہمیت…..محمد آمین

شیئر کریں:

نوروز فارسی زبان کے دو الفاظ نو اور روز سے آخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے نیا دن(New Day)۔لیکن اجتماعی طور پر نوروز کا معنی سال کا نیا دن شمار ہوتاہے۔عموما یہ روایت سال کے ماہ بہار کے آمد کی نشاندہی کرتی ہے،اور فارسی کیلنڈر میں اس سے نئے سال کا اغاز لیاجاتا ہے۔نوروز کے تہوار کو مختلف مذاہب اور زبان بولنے والے لوگ کئی ہزار سالوں سے بڑی محبت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔روایت کے مطابق نوروز کا آغاز achaemediansسلطنت کے وقت سے جس کا دورانیہ 550-33-قبل از مسیح ہے سے ہوا تھا۔بعض روایت کے مطابق یہ رسم زرتشت کے دور میں شروع ہوا تھا۔تاہم اس کی ارتقاء جو بھی ہو اج کئی مسلم معاشروں میں اس تہوار کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جس کی ایک وجہ اسکی خوبصورتی اور محبت کا پیغام ہے۔نوروز کا تہوار ہر سال 21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔


شیعہ اسلام کے علاوہ یہ تہوار صوفی،بیکتاشی اور بیہائی طریقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لئے بھی نہایت احترام اور مقدس دن ہے لفظ نوروز پہلی دفعہ فارسی تاریخی دستاویزات میں دوسری صدی عیسوی میں نمودار ہوا۔جب فارس یا پرانے ایران کو مسلمانوں نے اٹھ صدی میں فتح کیا تو مختلف ادوار میں اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی،تاہم علاقے کے رہنے والوں نے سخت سے سخت تریں وقت میں اس سے نہ صرف قائم رکھا بلکہ مذید ترقی دینے میں کامیاب ہو گئے۔جب ایران میں سامانید (Samanids) اور بوئید (Buyids) کے حکومت ائے تو انہوں نے نہ صرف جشن نوروز پر عائد پابندیا ن ہٹادیے بلکہ اس تہوار کو ایک نئی پہچان اور ترقی دیے۔خلافت عثمانیہ اور مغلون کے ادوار میں اس اہم تہوار کے راستے میں کوئی رکاوٹین کھڑی نہیں کیے بلکہ اس دن بادشاہوں اور امراء کے درباروں میں تحائف پیش کیے جاتے تھے۔جب ایران میں 1979؁ کی اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ اقدار میں اگیئے تو انہوں نے اس سے غیر اسلامی قرار دیکر ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے مقاصد میں بالکل ناکام ہوئے کیونکہ ایسے کوشش بعد میں غیر موثر اور غلط ثابت ہوئے۔


ان دنوں جشن نوروز کو ایران،افغانستان،البانیہ،جارجیا،تاجکستان،کرغستان،ازبکستان،ازربائیجان،عراقی کردستان اور ترکمانستان میں ریاستی تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور سرکاری طور پر چھٹی ہوتے ہیں جس کا دورانیہ دو سے چار دن کے ہوتے ہیں۔اسلامی جہموریہ ایران میں مہینے قبل اس تہوار کے لیے تیاریان شروع ہوتی ہے۔جنوبی ایشیاء خصوصا پاکستان اور ہندوستان میں رہنے والے شیعہ مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی اس تہوار کو بڑی مذہبی عقیدت سے مناتے ہیں۔


شیعہ اسلام میں نوروز کی تہوار کو ایک مخصوص مذہبی اور ثقافتی اہمیت حاصل ہے،علامہ باقر مجلسی اپنی مشہور تصنیف،،بحاروا ل انوار،، میں نوروز کے حوالے سے لکھتا ہے کہ اس دن ذیل اہم واقعات نمودار ہوئے تھے،
انسان کی تخلیق سے قبل اللہ رب العزت نے اس دن آرواح سے عہد لیاتھا۔


اس دن کائینات کا پہلہ حرکت واقع ہوا تھا اور حضرت آدمؑ کا خلقت بھی اس دن ہوا تھا
حضرت ابراہیم ؑ نے اس دن اپنے بڑوں کے بتوں کوتھوڑا تھا،اور نوروز کے دن لیلت القد ر کے رات قران پاک نازل ہوا تھا۔
انحضرتﷺ اس دن کعبہ کے اندر جناب علیؑ کو اپنے کندھے پر بھٹاکر 360بتوں کو زمین دوز کیاتھا۔نیز نبی مقدسﷺ نے نوروز کے دن غدیر کے مقام پر علی ابن ابی طالب ؑ کی امامت کا اعلان فرمایا تھا۔


حضرت علی نوروز کے روز پیدا ہواتھا،اور مکہ سے مدینہ ہجرت بھی اسی روز واقع ہوا تھا۔
حضرت سلمان فارسی اس دن اسلام لایا تھا اور نوروز کے روز جناب محمد ﷺ اور جناب علی ؑ کو تحائف پیش کرتا تھا۔


نوروز کا تہوار ہمیں اتحادو یگانگی اور صبر کا درس دیتا ہے۔اس دن لوگ خوشی مناتے ہیں مخصوص دعائیں مانگتے ہیں ایکدوسرے کے گھر جاتے ہیں اور تحفون کا تبادلہ ہوتا ہے جسے اخوات اور بھائی چارے کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔نوروز کی اہمیت کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 2010ء میں 21مارچ کو نوروز کا بین الاقوامی دن قرار دیا،جو کہ ایرانی ارتقاء کا موسم بہار کا تہوار ہے جو تین ہزار سال سے زیادہ عرصے سے منایا جارہا ہے اور تما م ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ اس اہم تہوار کے اعلی تاریخ سے مستفید ہوکر آمن اور خیر سگالی کو فروغ دینے میں مد د کریں۔اس کے علاوہ دو نومبر 2009ء کو دوبئی میں آقوام متحدہ کے انٹر گورنمنٹل کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کا مقصد دنیا کے غیر مادی ورثے کا تحفظ ہے اسی اجلاس میں نوروز کے تہوار کو یونیسکو کے انسانیت کے غیر مادی ثقافتی ورثے (Intangible Cultural Heritage of Humanity )کے لسٹ میں شامل کیا گیا ۔ لہذا یہ ضروری بن جاتی ہے کہ اس اہم روایت کو محٖفوظ اور ترقی دینے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ ہماری ثقافتی ورثے کی ایک نمایان اہم علامت ہے۔


شیئر کریں: