Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مختصرسی جھلک ……. عورت مارچ…..فریدہ سلطانہ فری

شیئر کریں:


اس حقییقت سے ہم کبھی انکاری نہیں ہوسکتےکہ ہرمعاشرےمیں جھاں برے لوگ بستے ہیں وہاں اچھے لوگ بھی ہیں جہان برائی ہے وہا ں اچھاِئی بھی اپنی جگہ قا ئم ہے اورجہاں کسی کی زندگی اس کی چاہ اورخواہیش کے مطابق مطمئین گزر رہی ہوتی ہے تو وہا ں ایسا طبقہ بھی بستا ہے جو اپنی محرومیوں اورمساِئل کو لیکرزندگی کےساتھ ایک نا ختم ہونے والے جنگ میں لگی ہےجہاں ہم حقوق وفرائض اوران کی کمی کی بات کرتے ہیں تووہاں ٹارگٹ ہمیشہ ایسی خواتین ہوتی ہیں جو اپنی بنیادی سہولیات سےمحروم ہیں جو زندگی کو جی نہیں رہی ہوتی بلکہ کاٹ رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔جیسے کہ چلتی کا نام گاڑِی۔


لہذا ہم جب بھی حقوق و فرائض کی کمی یا ظلم وذیاد تی کا تذکرہ کرتے ہیں یا صنفی امتیاز کی بات کررہے ہوتے ہیں تو وہاں اس سے مراد صرف وہی عورتیں ہیں جومظالم اور مسائل کا شکار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عموما ایسے موقعوں پر لوگ اعتراض کرنا شروع کرتے ہیں کہ سب کو تو اپنے حقوق ملے ہیں پتہ نہیں یہ عورتیں اور کیا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کو یا آپ کے احباب کو ،ارد گرد عورتوں کو کوئی مسائل نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ساری عورتوں کو انکے حقوق،جینے کا حق، صحیح تعلیم کا حق، وراثت میں حصہ وغیرہ وغیرہ مل چکے ہیں یا سب کو یہی مواقع میسر ہیں۔۔۔

یہ جو لو گ اواز اٹھآ رہے ہیں ایسی ہی عورتوں کے لئے اٹھآ رہے ہیں جو اپنی بنیادی حقوق سے محروم ہیں یہ بات سو فیصد درست ہے اور اس پر میرا پختہ ایما ن بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اسلا م کے اندرعورت ہو یا مرد دونوں کو برابر کے حقوق دیے ہیں یہ اللہ پاک کی تقسیم ہے اس میں تو اونچ نیچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ جب ہم انسانوں کے ہاتھ ائی تو اس کا توازن ہم لوگوں نے بگاڑ دیا۔ جن جن لوگوں نے اللہ پاک کے اس صنفی تقسیم میں توازن کو برقرار رکھا ہے ان کی زندگیا ں بہترین گزرر ہی ہیں اور ان لوگوں کے ہاں مرد ہو یا عورتیں سب ایک مطمئین زند گی بسر کر رہے ہیں کیوںکہ ان کے ضمیر پرکسی کے حقوق اور فرائض کی کوتاہی کا کوئی پہاڑ نما بوجھ نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی ذات سے لیکر خاندان تک مطمیئن اور آباد ہوتےہیں کیونکہ کسی کا حق چھین کر یا فرائض سے لاپرواہ ہوکر نہ ہی انسانی ذات سکون کی نعمت سے بہراور ہوسکتا ہے اور نہی خآندانی طور پر کوئی اباد ہو سکتا ہے ۔


رہی بات عورت مارچ کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی بھی تبدیلی کے لئے جب مذہب ،تہذ یب و ثقافت سے باغی ہو کرکی جائے تو پھر تبدیلی نہیں تباہی آتی ہے اوریہ تبا ہی سب کو لیکر ڈوبتی ہے اب سوال یہ ہے کہ پھر کسطرح اس مسلے کو دور کیا جائے کو نسا طریقہ کا راختیا ر کیا جائے کہ جن جن عورتوں کو جو جو محرومیاں اور مسائل ہیں وہ جن پرتششدد ہو رہی ہے، جوبے گھر ہیں جو تعلیم سے محروم ہیں، جو قانونی امداد کے حقدار ہیں، جو کسی بھی گھریلومسئلے کا شکار ہیں یا کوئی ہراسمنٹ کا شکار ہے دور ہو جائیں ۔کسی کو حق وراثت کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ


ا یسے تمام خواتین کو بااختیار بنا نے کے لئے، تعلیم کے زیور سے اشنا کرنے ، لوگوں کو عورتوں کے حقوق پر اگاہی دینے ،عورتوں کو روزگار کے مواقٰع فراہم کرنے ،مجبور اور ضرورت مند خواتین کو قانو نی امداد دینے کے لئے حکومتی اور این جی او سطح پراقدامات کیے جائیں یا کوئی قانون بنایا جائے اورخواتین کو معاشی استحکام د ینے کے لئے حکمت عملی کی جائے جوایک حد تک ہوبھی رہی ہے اوراس کے نتیجے میں پہلے کی نسبت کافی تبدیلی بھی اچکی ہے یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ صاحب اختیار اور پیسے والی خواتین سڑکوں پر ہنگامہ کرنے کے بجائے ذاتی طور پر ایسے کوِ ئی اقدامات ا ٹھائیں کہ جس سے ان عورتوں کے مسائل دور ہو جائیں اور کسی ایک بچی کی تعلیم کا خرچہ اٹھائیں یا کسی بیمار ماں بہن کے ہسپتال کے خرچے برداشت کرے یا کسی خاتون کی قانونی امداد کرے وغیرہ وغیرہ۔


میری زاتی رائے یہی ہے کہ عورت مارچ تو بلکل ہی اس کا حل نہیں ہے معذ رت کے ساتھ ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدارا اس معاشرے کو تباہی کی طرف مت لے جاو۔ پر امن اور جائز طریقے سےجن جن کوحقوق نہیں ملے ہیں جو نبیادی سہولیات سے محروم ہیں ان کے لیے کوششش کی جائے تاکہ مسئلہ بھی دور ہو اور معا شرے میں بدامنی کی فضا بھی پیدا نہ ہو۔۔۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
46210