Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لانگ مارچ پر اصولی اختلاف……محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اپنے سربراہ اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کو امیدوار نامزد کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے مشترکہ امیدوارلانے، لانگ مارچ کی تیاریوں و حکمت عملی، وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے بعد کی صورتحال اور مجموعی ملکی سیاسی حالات پر غور کیا گیا۔ پی ڈی ایم کمیٹی کی سفارشات اجلاس میں پیش کی گئیں سفارشات کے مطابق لانگ مارچ 26 مارچ کو کراچی میں ایک عوامی اجتماع کے ساتھ شروع ہوگا، تمام جلوس 30 مارچ کی سہ پہر 3 بجے تک اسلام آباد پہنچیں گے۔

تمام جماعتوں کوذیادہ سے ذیادہ افراد کو لانے کیلئے متحرک ہونے کی ہدایت کی گئی،لانگ مارچ کے شرکا کے استقبال کیلئے فیض آباد میں مرکزی کیمپ لگایا جائے گا،تمام جماعتیں اپنے کارکنوں کو لانگ مارچ پر لانے کے اخراجات خود برداشت کریں گی، پی ڈی ایم کی سینئر قیادت چاروں صوبوں کا دورہ کرکے لانگ مارچ کے لئے لوگوں کو متحرک کرے گی مارچ کے لئے مختلف کمیٹیاں فوری طور پر تشکیل دی جائیں گی جن میں کنٹرول روم، میڈیا، تشہیراور استقبالیہ کمیٹی شامل ہیں اس کے علاوہ سیکیورٹی کمیٹی، سہولیات کمیٹی، لیگل کمیٹی، فنانس کمیٹی،پروگرام کمیٹی، فوڈ کمیٹی، میڈیکل کمیٹی بھی بنائی جائیں گی۔ لانگ مارچ میں شرکت کے لئے تاجروں، کسانوں اور مزدور یونینوں سے رابطہ کیا جائیگا۔دوسری جانب پی ڈی ایم کی طرف سے چیئر مین سینٹ کے نامزد امیدوار یوسف رضا گیلانی کاموقف ہے کہ لانگ مارچ سے قبل ہوم ورک ضروری ہے، ہم ناکامی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے اپوزیشن اتحاد میں واضح اختلافات ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی لانگ مارچ کے حق میں نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں بھی دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین نے لانگ مارچ اور حکومت کو گرانے کے حوالے سے کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ صرف پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو حکومت گرانے کی کافی جلدی ہے۔ اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں کی قیادت کو موجودہ صورتحال کی سنگینی کا احساس ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے سے ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔اگر اپوزیشن کو حکومت سازی کا موقع مل بھی گیا۔ تو موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحران کا ان کے پاس کوئی حل نہیں۔اگر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا جے یو آئی کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو ہر حکومت پر پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔ان کی شرائط میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ، سبسڈیوں کا خاتمہ، ٹرر فنانسنگ کی روک تھام اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد شامل ہیں جس سے کوئی بھی حکومت روگردانی نہیں کرسکتی۔

موجودہ حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ایسا انتخابی منشور نہیں کہ اس سے وہ رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرسکے ان وجوہات کی بناء پر موجودہ صورتحال عام انتخابات کے لئے سازگار نہیں۔ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر حکومت سکول، شادی ہال، ریسٹورنٹس اور تجارتی مراکز کھولنے کے فیصلے پر نظر ثانی اور سمارٹ لاک ڈاؤن دوبارہ نافذ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں لانگ مارچ اور دھرنے دینے کا رسک کافی خطرناک ہوگا۔ حکومت کو گرانے کے لئے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کا قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے۔ اگلے چھ مہینوں تک اپوزیشن آئینی طور پر عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کرسکتی۔حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی قوتوں کو اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک اور قوم کے بارے میں سوچنا چاہئے۔لنگڑی لولی جمہوریت کو ہی چلنے دیں۔کیونکہ یہ بہترین شخصی آمریت سے بہرحال بہتر ہے۔


شیئر کریں: