Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تقوی انسانی زندگی کی حفاظتی تدبیر ہے ….تحریر: علامہ سید جواد نقوی

شیئر کریں:

تحریر: علامہ سید جواد نقوی (تحریک بیداری امت مصطفیٰ، جامعہ عروۃالوثقیٰ کے سربراہ)


تقوی انسانی زندگی کی حفاظتی تدبیر ہے اللہ کی جانب سے، اور اسی تدبیر کے ذریعے انسان کی زندگی دنیاوی خطرات سے محفوظ ہو گی۔ تقوی کے حصول کے عوامل میں سے ایک صراط مستقیم ہے، سورہ انعام میں خدا نے صراط مستقیم پر قائم رہنے اور سبل سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی ان سبل کی نشاندہی کردی ہے جن میں سے ایک” سبیل لایعلمون “ہے۔حضرت موسیٰ کو، بنی اسرائیل کو محکومی کی زندگی سے نکالنے کے لیے مبعوث فرمایا اور تعاون کے لیے ہارون کو مامور فرمایا ہے اور دونوں بھائیوں کو حکم فرمایا کہ آپ اپنی تدبیر وحی کے مطابق کریں اور وہ تدبیر سورہ یونس میں بیان فرماء اور نہیں فرمائی کہ نادانوں کا راستہ نہیں اپنانا۔ بنی اسرائیل کی نسبت ابھی قوموں کو اس راہنمائی کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ بہت سی قومیں ظلم کا شکار ہیں، توہین و تحقیر ہو رہی ہے، بنیادی حقوق سے محروم ہیں، ہر روز ذلت پر اکسانے کی کوشش ہو رہی ہے ایسے میں قرآن ان کی آزادی کی تدبیر پیش کر رہا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ شعور نہ ہونے کی وجہ سے قوم اللہ کی تدبیر پر، انبیاء کی سیرت پر، اہل بیت کے راستے پر نادانوں کی تجاویز کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ خدا نے بنی اسرائیل کے رہبر کو تدبیر بتائی اور یہ تدبیر قرآن کا حصہ بن گئی۔

مطلب اگر مسلمانوں میں ایسی قوم کی حالت ہوئی تو وہ یہ تدبیر اپنائیں۔ سورہ مبارکہ یونس: حکم یہ ہے کہ نجات و آزادی کی تحریک کے پہلے قدم کے طور پر اپنی قوم کے لیے مصر میں بیوت (مرکز) بناؤ، اس کو قبلہ بناؤ، اقامہ صلاۃکرو، پھر قوم کو آزادی کی نوید سنا دو قرآن نے بیت کا ذکر کیا لیکن کچھ مفسرین نے اس سے رہائشی گھر مراد لیے جبکہ یہاں آیہ میں امت کی نجات کا طریقہ بتایا جا رہا ہے۔بیت: “بیتوتہ” سے ہے کیونکہ سکون کے لیے گھر چاہیے ہوتا ہے جسے فارسی میں منزل یا خانہ، عربی میں بیت اور لنڈے میں Home کہتے ہیں۔ اگر بیت کے معنی پر غور کریں تو اہل بیت بھی سمجھ آ جائیں گے۔ قرآن نے خاص مکانات کے لیے لفظ استعمال کیا ہے سورہ بقرہ کی آیہ پیش کی تھی جہاں ابراہیم کو بیت کا حکم دیا، اس طرح خدا نے ایک اور مقام پر بیت کو کعبہ کے لیے استعمال کیا ہے۔ سورہ آل عمران آیہ: 96الفاظ قرآن کو ترجمہ، تفسیر ضرورت نہیں بلکہ تبیین کی ضرورت ہے تبیین یعنی وضاحت، کھولنا ” پہلا بیت جو لوگوں کے لیے (نہ کسی خاندان کے لیے بلکہ بشریت کے لیے) بنایا گیا تھا بکہ (مکہ کا پرانا نام ہے) میں، اس بیت کو مبارک بھی بنایا گیا ” مبارک: یعنی افزونی، جہاں انسانی ضرورتیں وافر مقدار میں مہیا ہوں اس کو عربی میں مبارک کہتے ہیں یعنی ہر وہ چیز جو آئندہ بشریت کے لیے ضروری ہے یہاں رکھ دی گئی ہے

مطلب یہ نہیں کہ دعائیں مانگیں، دیوار کعبہ پکڑ کر، چائنا کی لسٹ نکال کر، خدا کے سامنے پیش کریں کہ میں تیرا مخلص بندہ ہوں اور یہ چیزیں خرید سکوں اتنے پیسے دے دے۔ روایات میں ہے کہ کعبۃ اللہ توحید کی علامت ہے جہاں خداپرست انسانوں کی مرکزیت رکھی گئی ہے۔” اور اس مرکز سے عالمین کو ہدایت ملنی ہے “ھَدیِ: وہ پتھروں کا ٹیلہ، برج یا راستے کی علامت جنہیں سنگ میل کہا جاتا ہے صحرا میں ایک میل کے فاصلے پر دور ایک پتھر رکھ دیتے ہیں جو راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اسے ھدی کہتے ہیں۔ یعنی وہ علامتیں، وسائل، راہنمائی، آگاہی، روشنی جو انسان کو راستوں کا پتہ دے دے، جس سے ہدایت کے اسلوب سمجھ آجائیں، مقصد تک پہنچنے کی راہ بتائیں، خدا نے زندگی دی اور مقصد کے حصول کے لیے اہتمام رکھا جو ہدایت کہلاتا ہے۔خدا نے ابراہیم کو حکم دیا مرکز بناو اور پھر لوگوں کو بلاؤ کیونکہ مرکزِ ہدایت، مرکزِ مبارک ہے تمام ضروریات کے حصول کے لیے مرکزی آفس ہے جس کے لیے آج (سیاسی) House کا لفظ استعمال ہوتا یے جہاں سوچ بچار کرنے والے لوگ جمع ہوتے ہیں جو مملکت کے لیے تدبیر کرتے ہیں کہتے ہیں یہ ہاؤس کا ممبر ہے، ہاؤس کارکن ہے،

بعض منسوب افراد جن کے پاس اختیارات ہوتے ہیں وہ اپنی حیثیت اور منصب کے مطابق بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ اب یہاں کعبہ میں بشریت نے آنا ہے اپنی ضروریات دستور اور منشور لے کر جائیں گی اور اس سالانہ اجتماع میں رہنمائی اور ہدایت ملے گی۔ اسے ‘House off Toheed’ کہا جا سکتا ہے۔ خدا نے مکہ کے اندر بیت بنوایا اور اس بیت سے توحید کا نظام نکلا جو مدینے میں قائم ہوا خدا نے حکم دیا کہ بیت یہی رہ گا آپ حکومت مدینہ میں قائم کریں۔ اسی نظامِ توحید سے ایک اور نظام نکلا جسے بیت کی ضروت ہے اسکا نام ہے بیت النبوہ، بیت الرسالۃ امام حسین علیہ السلام سے جب یزید نے بیعت کا مطالبہ کیا تو امام نے اپنا تعارف اس سے کروایاانا اہل بیت النبوہ جیسے یہاں کوئی فرد جاتا ہے تو کہتا ہے تمہیں پتہ ہے مجھ سے کیا مانگ رہے ہو میں پارلیمان، کابینہ کا رکن ہوں،

اس طرح امام نے فرمایا کہ تمہیں پتہ ہے تم کیا مانگ رہ ہو میں ووٹر یا تمہاری ریت نہیں بلکہ بیت النبوہ کارکن ہوں۔ مجھے ممبرشپ دی گئی ہے بیت النبوہ کی، اس بیت النبوہ کے ارکان کا نام ” اہل بیت ” ہے۔ خدا نے موسیٰ کو حکم دیا کہ مرکزیت بناؤ اس میں اقامۃ الصلاۃ کرو۔ یہاں صلوۃ کی تشریح کی ضرورت ہے۔ الصلاۃعمود الدین دین کا بنیادی ستون، جس پر دین کا نظام قائم ہونا ہے یہ مرکزی ستون ان مراکز کے اندر قائم کرو، یہ ستون جب مراکز میں قائم کر لو گے اب وعدہ بشارتِ آزادی دے سکتے ہو کہ ستم و طاغوت کا خاتمہ قریب ہے، خدا کے حکم سے مرکزیت بن گئی ہے، لوگوں نے مرکز کو قبلہ بنا دیا ہے، اب آزادی کی صبح قریب ہے، طلوع ہونے والی ہے، یہ تدبیر ہے اللہ کی طرف سے۔ ان شاء اللہ خدا ہمیں فہم دین کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شیئر کریں: