Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان…..”بچوں پر تشدد کی روک تھام کا بل“….محمد جاوید حیات

شیئر کریں:


اسمبلی میں بجوں پر تشدد روکنے کا بل پاس ہوا۔ساتھ اور بھی بل تھے ان کا تعلق بھی تشدد اور انسانوں کا انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے ساتھ تھا۔۔بل بڑے خلوص سے پیش کیے گے۔سکول میں استاد بچوں پر تشدد نہ کرے پیار سے پڑھائے۔مار پر پابندی ہو دنیا کے دوسرے ممالک میں مار اور جسمانی سزا پر پابندی لگی ہے۔بچے پیار سے اچھا سیکھتے ہیں۔یہ ساری باتیں سچی کھری ہیں ان پر کوئی کیا اعتراض کرے۔لیکن یہ سب لوگ اس حقیقت سے انکاری کیوں ہیں کہ استاد کے لئے اس کا شاگرد اس کے بچوں سے بھی اہم ہے استاد کو ہمہ وقت ان بچوں کی فکر رہتی ہے ان کی تربیت ان کی کامیابی اور ان کا روشن مستقبل استاد کی منزل ہو تی ہے یہ حقیقت ہے کہ اگر استاد سہی معنوں میں استاد ہو اگر راج مزدور ہو تو اس کو کوئی استاد بھی نہ کہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آے دن سکولوں میں بچوں پر تشدد کے واقعات سننے کو ملتے ہیں لیکن اس استاد کے بارے میں تحقیق نہیں ہوتا نہ اس کو نشان عبرت بنایا جاتا ہے۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے ہزار اچھوں میں ایک برا ہو تو ہزار اچھوں کی کوئی بات نہیں کرتا۔سکولوں میں جسمانی سزاؤں پر پابندی ہونی چاہئے لیکن اس استاد کی بھی عزت نفس ہے۔بچوں سے برسرعام یہ کہا جاتا ہے کہ استاد تمہیں سزا نہیں دے سکتا سکولوں میں ایمرجنسی فون نمبر گیٹ پر دیواروں پر لکھے ہوئے ہوتے ہیں اگر کسی استاد نے بچے کو چانٹا رسید کیا تو اد نمبر پر اطلاع دینا۔۔استاد یہ دیکھ کر افسردہ ہوتا ہے اور اپنی حیثیت پر کڑھتا ہے پہلے تو یہ اس بچے کو اپنی منزل اور شناخت سمجھ رہا تھا اب سوچتا ہے کہ اس کی حیثیت بچے کی مربی کی نہیں ہے اگر ایسا ہے بس وہ واجبی سی پڑھائی کرے بچے کی مرضی ہے پڑھے نہ پڑھے۔بات سوچنے کی ہے کہ معاشرے میں کیا صرف استاد ہی رہتا ہے کیا صرف سکولوں میں بچوں پر تشدد ہوتا ہے باقی معاشرہ ستھرا ہوا ہے۔۔کہیں کوئی تشدد نہیں ہوتا۔گھروں میں کام کرنے والے بچے پیار کے ماحول میں یوتے ہیں۔ریپ کیسس کہیں نہیں ہوتے۔مزدور بچوں کا استحصال نہیں ہوتا اس فلاحی ریاست میں سب کو بنیادی حقوق مل رہے ہیں لہٰذا تشدد کی روک تھام کا بل پیش کیا جاتا ہے۔
ملک میں دو قسم کے بلکہ کئی قسم کے تعلیمی ادارے ہیں سب کا اپنا سسٹم ہے دارالعلوم میں سزا پر کوئی پابندی نہیں اس لئے ان کی نظم وضبط ٹھیک ٹھاک جارہی ہے۔بڑے بڑے غیر سرکاری اداروں میں استاد ویسے بھی بچے کا غلام ہے اس کے مزاج شاہانہ کے خلاف کچھ بول تک نہیں سکتا سزا کیا دے۔اب سرکاری سکولوں کی باری آئی ہے تو سارے قوانین اس پہ لاگو ہوتے ہیں۔یہاں پر وہ بچے آتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ان کے والدین کو اپنی مجبوریوں سے فرصت نہیں ہوتی بس ان کو سکول بھیجتے ہیں وہ بچے ہر لحاظ سے قابل توجہ ہوتے ہیں۔ان کو مناسب تربیت کی ضرورت ہوتی ہے گھر میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اب استاد ہی ان کا سب کچھ ہے تعلیم تربیت کا بھی نام ہے ایک بچہ گھر میں بے توجہی کا شکار ہے کاپی نہیں لکھتا ہوم ورک نہیں کرتا ماں باپ کی نہیں سنتا وہ سکول آتا ہے اگر استاد اس کی تربیت پر توجہ نہ دے تو آگے جا کر وہ چور اچکا بن جائے گا پولیس اس کو پکڑے گی آپ انصاف سے بتایئں کہ کیا اس ملزم کے ساتھ پولیس پیار کرے گی۔اس کی بلائیں لے گی۔ جب تک وہ اپنے جرم کا اقرار نہ کرے۔ کیا وہ بے تربیت بچہ معاشرے کے لئے سود مند ہوگا۔اس پر کوئی نہیں سوچتا۔۔استاد کے پاس تربیت کا ہاتھ ہوتا ہے اس کو اگر روکا جائے تو یہ معاشرہ جنگل بن جائے گا۔۔انسا ن نما درندے دنداناتے پھریں گے۔استاد ہی ہے کہ وہ بچے کو انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔۔اگر سکول میں کسی بچے پر بے جا تشدد یوا ہو تو اس کی تفتیش کرکے متعلقہ استاد کو قرار واقع سزا دی جائے عبرت کا نشانہ بنایا جائے تاکہ تشدد کی درست روک تھام ہو مگر ایسا نہیں ہوتا یہ بل خالی باتوں کی حد تک ہیں۔۔بچوں کے ریپ کیسس میں اگر ایک مجرم کو سرعام لٹکا یا جاتا تو تا قیامت ایسی کیس پھرنہ آتی ایسا نہیں ہوتا۔۔یہ بل بھی ایسا ہی ہے لیکن اس سے استاد جو بچے اور قوم کا صحیح معنی میں معمار ہے اس کے جذبے پر کاری ضرب ہے۔۔اس کے ہاتھ پاوں باندھنے کے مترادف ہے۔۔یہ تشدد لفظ ہی اس کے ساتھ توہین ہے۔۔استاد کا احترام کیا جائے اس کو کام کرنے دیا جائے اور اس سے صحیح معنی میں کام لیا جائے۔اس کے کام کی نگرانی کرنے کی بجائے اس کے بارے میں ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جو اس کے ساتھ منسوب ہی نہیں ہیں۔۔استاد کا شاگرد اس کی زندگی ہے کوئی اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں کچل تو نہیں دے گا۔


شیئر کریں: